2024 March 29
امام حسین (ع) مظہر کرامت اور عزت نفس
مندرجات: ١٧٩٤ تاریخ اشاعت: ٠٣ March ٢٠٢٢ - ٠٧:٠٠ مشاہدات: 4959
یاداشتیں » پبلک
جدید
امام حسین (ع) مظہر کرامت اور عزت نفس

 

امام حسین (ع) مظہر کرامت اور عزت نفس

1- امام حسین (ع) کی کرامت نفس:

یہ اخلاقی اسلامی عادت امام حسین (ع) کے مبارک وجود میں ایسے عملی طور پر پائی جاتی تھی کہ انکی حیات طیبہ کرامت نفس کے بارے میں کلمات سے بھری پڑی ہے۔

حماسه حسيني ، ج 3 ص 381

2- کرامت نفس اور عزت نفس کی معراج:

امام حسین (ع) سے عزت اور غیرت کے بارے میں ایسے نورانی کلمات نقل ہوئے ہیں کہ جن سے مقام انسانی کی عزت و غیرت کی معراج ہو جاتی ہے۔ اصل میں واقعہ کربلا سبب بنا ہے کہ ایسے نورانی کلمات دوسرے آئمہ (ع) کی نسبت امام حسین (ع) سے زیادہ نقل ہوئے ہیں کیونکہ اس مقام پر امام حسین (ع) نے اپنے نفس کی تجلی کو ان کلمات میں زیادہ ظاہر کیا ہے۔

نقل ہوا ہے کہ امام حسین (ع) جب سرزمین کربلا کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں بار بار بہت سے افراد نے ان سے کہا:

مولا نہ جائیں وہاں آپکی جان کو خطرہ ہے۔

امام حسین (ع) نے سب کو باری باری مختلف جواب دئیے کہ جنکا معنی تھا کہ نہیں میں ضرور جاؤں گا، مجھے ضرور جانا چاہیے۔

ان افراد میں سے ایک نے ان حضرت سے ملاقات کرتے وقت کہا: آپ کے جانے میں کوئی مصلحت (فائدہ) نہیں ہے، لہذا نہ جائیں ! امام نے فرمایا: میں تم کو وہی جواب دوں گا کہ جو رسول خدا (ص) نے اپنے ایک صحابی کو دیا تھا کہ جب اس نے چاہا کہ ان حضرت کو جہاد میں شرکت کرنے سے منع کرے، پھر امام حسین (ع) نے اس شخص کے لیے ان اشعار کو پڑھا:

سامضي و ما بالموت عار علي الفتي

اذا ما نوي حقا و جاهد مسلما

و واسي الرجال الصالحين بنفسه

و فارق مثبورا و خالف مجرما

امام حسین (ع) نے فرمایا:

موت في عز خير من حياه في ذل،

عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے،

میں ضرور جاؤں گا، موت ایک مرد کے لیے ننگ و عار نہیں ہے، اگر اسکی نیت حق ہو اور وہ راہ حق میں جہاد کرنے والا ہو، اور وہ نیک انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا ہو اور اپنے راستے کو بد بخت مردہ ضمیر مجرم انسانوں سے جدا کرنے والا ہو۔

فان عشت لم اندم و ان مت لم الم

كفي بك ذلا ان تعيش و ترغما

میں یا زندہ رہوں گا یا مر جاؤں گا، اسکے علاوہ کوئی تیسری صورت ممکن نہیں ہے، میرے لیے اس راہ کے دونوں طرف خیر و سعادت ہے، اگر زندہ رہا تو کوئی میری مذمت نہیں کرے گا کیونکہ میں نے تو موت سے فرار نہیں کیا اور اس آزمائش میں کامیاب ہوا ہوں، ایسی زندگی میرے لیے قابل مذمت نہیں ہے اور اگر میں مر بھی جاؤں تو پھر بھی مجھے کوئی ملامت نہیں کرے گا۔

انسان الاشراف ، ج 3، ص 171.

كفي بك ذلا ان تعيش و ترغما

تمہاری ذلت کے لیے یہی کافی ہے کہ تم زندہ رہو اور تمہاری ناک خاک پر رگڑی جائے، (یعنی انسان کے لیے اس سے بڑی اور کوئی ذلالت نہیں ہے)

انسان الاشراف ، ج 3، ص 171.

فلسفه اخلاق ، ص 160.

3- روح عزت و بزرگواری:

امام حسین (ع) نے فرمایا ہے کہ:

موت في عز خير مت حياه في ذل،

عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے،

ملحقات احقاق الحق ، ج 11، ص 601.

امام حسین (ع) نہیں فرما رہے کہ اپنی جان سے راہ خدا میں جہاد کرنا، ہمیں حکم دے رہا ہے کہ ہم یزید اور ابن زیاد کے سامنے تسلیم ہو جائیں،

الا و ان الدعي ابن الدعي قد ركز بين ...

ابن زیاد ! اس حرام زادے نے کہ جو خود حرام زادے کا بیٹا ہے، نے مجھ سے چاہا ہے کہ دو میں سے ایک چیز کو انتخاب کر لوں: یا تو ذلیل ہو کر سر تسلیم خم کر لوں اور یا تو شمشیر اٹھا لوں،

لهوف ص 85،

نفس المهموم ص 149. 

و هيهات منا الذله،

ہم کہاں اور ذلت کو قبول کرنا کہاں ! اس بات پر خداوند بھی راضی نہیں ہے کہ میں ذلت کو قبول کروں،

یعنی امام حسین (ع) کہنا چاہتے ہیں کہ ایسا نہ کرنا میری ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ میرا دین میرا مذہب، میری تربیت حضرت علی (ع) و حضرت زہرا (س) کے دامن میں ہوئی ہے، یہ تربیت مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں یزید اور ابن زیاد جیسوں کے سامنے سر تسلیم خم کروں !

امام حسین (ع) نے نہیں فرمایا کہ: ہم جاتے ہیں تا کہ ابن زیاد کے سامنے ہار مان لیں اور اسکا بھی جو دل ہے ہمارے ساتھ کر لے، وہ زیادہ سے زیادہ سے ہماری توہین کرے گا، ہمیں گالیاں دے گا، وہ جس قدر یہ کام زیادہ کرے گا، اتنا ہی ہمارا جہاد زیادہ ہو گا،

نہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ

لا و الله لا اعطيكم بيدي اعطاء الذليل ، و لا افرا فرار العبيد،

میں ہرگز ذلیل ہو کر اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار کروں گا،

ارشاد مفيد، ص 235.

ایک دوسری نقل کے مطابق:

و لا اقر اقرار العبيد ،

۔۔۔۔۔ اور نہ ہی فرار کرنے والے غلاموں کی طرح اعتراف کروں گا،

اس طرح کے کلمات قرآن و حدیث اور آئمہ کے کلام میں اور خاص طور پر امام حسین (ع) کے کلام میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔

انسان كامل ، ص 239.

4- عزت سرخ موت (شہادت) میں ہے:

امام حسین (ع) ایسی سعادت ابدی کی راہ پر چل رہے تھے کہ اس راہ پر انکا سامنا یزید جیسے لعنتی اور جہنمی شخص سے تھا۔ امام حسین (ع) خود فرما رہے تھے کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا، دو صورتیں ہی ہو سکتی ہیں: یا زندہ رہوں گا یا قتل کے دیا جاؤں گا،

فان عشت لم اندم ،

اگر زنده رہا تو کوئی نہیں کہے گا کہ کیوں زندہ ہو،

و ان مت لم الم ،

اور اگر اس راہ میں شہید ہو جاؤں تو جس جس کو معلوم ہو گا کہ میں کس مقصد کے لیے شہید ہوا ہوں تو وہ میری مذمت نہیں کروں گا،

كفي بك ذلا ان تعيش و ترغما ،

کیونکہ شخص کی ذلت اور بدبختی کے لیے کافی ہے کہ وہ زندہ تو رہے لیکن اسکی ناک مٹی میں ملا دی جائے۔

اس راہ میں چلتے ہوئے خطاب میں فرمایا:

الا ترون ان الحق لا يعمل به و ان الباطل لا يتناهي عنه،

پھر آخر میں فرمایا:

اني لا اري الموت الا سعادۃ و لا الحيوۃ مع الظالمين الا برما ،

میں (راہ حق میں) مرنے کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ننگ و عار شمار کرتا ہوں۔

حماسه حسيني ، ج 1، ص 153و154..

5- امام  حسین (ع) بالکل بیعت نہ کرنے والے انسان !

حرّ امام حسین (ع) کو کوفہ کی طرف لے کر جانا چاہتا تھا، لیکن امام نے انکار کیا، کیونکہ امام حسین (ع) بالکل سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہتے تھے، حالانکہ حرّ امام کو اپنی زیر نگرانی لے کر جانا چاہتا تھا، اسی امام حسین (ع) نے پورے عزم اور ارادے کے ساتھ فرمایا:

میں تیرے ساتھ نہیں آؤں گا !

آخر کار بات چیت سے فیصلہ ہوا کہ اس راستے پر جائیں کہ جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قافلہ چلتے چلتے میدان کربلا میں پہنچ گیا۔

6- شرافت حسینی (ع):

راستے میں چلتے چلتے جب بھی امام حسین (ع) اپنے با وفا اصحاب سے خطاب فرماتے تو امام کے کلام میں عزت نفس، غیرت، شجاعت، بزرگواری اور عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دینا بہت ہی واضح معلوم ہوتا تھا:

الا ترون ان الحق لا يعمل به و ان الباطل لا يتناهي عنه ؟

کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ؟ کیا تمہاری آنکھیں کھلی نہیں ہیں ؟ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا، ہر طرف فساد ہی فساد ہے اور باطل ہی باطل ہے اور کوئی سے بھی فساد و باطل سے منع کرنے والا نہیں ہے،

پس اس صورتحال میں:

ليرغب المؤمن في لقاء الله محقا ،

مؤمن کو موت طلب کرنی چاہیے۔

گفتارهاي معنوي ، ص 191و192.

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات