2024 April 24
عقیدہ بدا کا کیا معنی ہے ؟ شیعہ بداء پر عقیدہ کیوں رکھتے ہیں ؟
مندرجات: ١٨٦١ تاریخ اشاعت: ٢٤ January ٢٠٢٣ - ٠٨:٢٢ مشاہدات: 4512
یاداشتیں » پبلک
"بداء" یا تقدیر الہٰی میں تبدیلی
عقیدہ بدا کا کیا معنی ہے ؟ شیعہ بداء پر عقیدہ کیوں رکھتے ہیں ؟

 
 تحریر : رستمی نژاد۔      ترجمہ : سید میثم زیدی
 
 اعتراض: 

شیعوں کے عقاید میں سے ایک "بدا" ہے۔ وہ اس عقیدے کے مطابق پشیمانی یا نادانی کو خدا سے نسبت دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے ائمہؑ کے بارے علم غیب کے دعویدار ہیں۔ گویا وہ ائمہ کو خدا سے بالاتر سمجھتے ہیں۔!

تحلیل اور جائزہ:

 

یہاں چند نکات کی یاددہانی ضروری ہے:

پہلا نکتہ:

لغت میں "بدا" کا معنی "پوشیدہ شیء کا ظاہر ہونا" ہے۔ یہ لفظ قرآن میں بھی اسی معنی میں ذکر ہوا ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

((وَ بَدا لَهُمْ سَيِّئاتُ ما كَسَبُوا،اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہو جائے گی))[1]

لیکن اصطلاح میں شیعہ اسے مجازی طور پر ابداء اور ظاہر کرنے کے معنی میں بیان کرتے ہیں۔ ان کی مراد یہ ہے کہ خداوند نے مخفی چیزوں کو بندوں پر ظاہر کردیا۔

یہ مجازی معنی صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ تعبیر اس روایت میں جسے خود وہابی بھی تسلیم کرتے ہیں بیان ہوئی ہے: بخاری نے صحیح میں بیان کیا ہے(انّہ سمع من رسول اللہﷺ انّ ثلاثۃ فی بنی اسرائیل ابرص و اعمیٰ و اقرع بدا للہ عزّوجل ان یبتلیھم۔۔۔رسول خدا سے سنا کہ بنی اسرائیل کے تین اشخاص پیسی، نابینایی اور گنجے پن کی بیماری میں مبتلا تھے، خداوند کے لیے بدا پیش آیا کہ انہیں آزمایا جائے۔))[2]

اس روایت میں داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے ایک فرشتہ کو ان تین افراد کی دلجوئی کے لیے ان کے پاس بھیجاانہوں نے اپنی مشکلات بیان کی، فرشتے نے ان پر ہاتھ پھیرا اور انہیں شفاء دی اور دنیوی منفعت بھی انہیں عطا کی۔ کچھ عرصے بعد جب ان کے پاس دنیوی مال ودولت کافی مقدار میں جمع ہوگیا تو وہی فرشتہ فقیر بن کر ان کے پاس گیا لیکن پیسی والےاور گنجے نے فقیر کی مدد نہ کی لیکن نابینا نے اس کی مدد کی، اس وقت خدا کے لیے بدا پیش آیا۔ اور ان دونوں کو ان کی پہلی حالت میں واپس لے آیا۔

اس روایت میں رسول اکرمﷺ نے "بداللہ" کی تعبیر سے استفادہ فرمایا ہے ۔ کیا وہابی پیغمبرﷺ پر بھی الزام لگا سکتے ہیں کہ آپؐ نے خدا سے جہل و نادانی کی نسبت دی ہے۔؟

دوسرا نکتہ:

قرآن میں بعض اوقات خدا کے لیے ایسے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے کہ جن کے رائج اور مشہور معنی سے خدا پاک و منزہ ہے۔ قرآن میں مکر، خدعہ اور نسیان جیسے الفاط خدا سے منسوب کیا گیا ہے۔)وَ مَكَرُوا مَكْراً وَ مَكَرْنا مَكْراً  اور انہوں نے مکارانہ چال چلی تو ہم نے ایسی حکیمانہ تدبیریں کیں((

 

[3](انَّ الْمُنافِقينَ يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ هُوَ خادِعُهُم،  یہ منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔)[4]

اسی طرح بیان ہوا ہے:( نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُم، ، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے۔)[5]

واضح ہے کہ جب خدا کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے تو ان کے رائج معنی کو نہیں بلکہ خدواند کی ذات پاک سے مناسب معنی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ الفاظ مجازی طور پر خدا کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ خدا کے بارے میں بدا کے لفظ کا استعمال بھی اسی طرح ہے، یعنی لوگ، جنہیں گذشتہ اور آئندہ کی خبر نہیں ہوتی ان کی نگاہ سے دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اللہ نے اپنی رائے بدل دی ہے اور ارادہ الہی میں کوئی تبدیلی پیش آئی ہے۔ جبکہ اللہ اس علم کے ذریعہ غیب سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا کے لیے کسی قسم کی بدا حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اصل معنی جو خدا کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے وہ لفظ "ابداء" ہے یعنی لوگوں کی نگاہوں سے پنہان چیز کو ظاہر و آشکار کرنا۔ اس کی مثال قرآن میں((جاننا)) ہے جہاں فرماتا ہے: خدا مؤمنین کو آزماتا ہے تاکہ مجاہدین اور غیر مجاہدین کی پہچان ہوسکے، (وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدينَ مِنْكُمْ وَ الصَّابِرينَ وَ نَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ،اور ہم تمہیں ضرور آزمائش میں ڈالیں گے یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کی شناخت کر لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔))[6]

اس جملے کا(حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدينَ منکم) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نہیں پہچانتا تھا اور آزمائش اور امتحان کرکے انہیں پہچاننا چاہتا ہے! بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ خداوند،معلوم ازلی کو عالم دنیا میں وجود میں لانا چاہتا ہے اور اس چیز کو جسے وہ اذل سے جانتا ہے امتحان کے ذریعے خارج میں عینیت بخشنا چاہتا ہے۔

اگر "بداللہ" کہنے سے خدا سے نادانی اور پشیمانی نسبت دی جاتی ہے تو(حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدينَ منکم) کہنا بھی خدا سے جہل اور نادانی کی نسبت دینا ہے!! وہابیوں کی اس قسم کی آیات کے بارے میں کیا رائے ہے؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی معنی جو شیعہ دانشوروں نے اللہ کے لیے "بدا" کی تعبیر کے لیے استفادہ کیا ہے، اہل سنت بزرگوں نے بھی بیان کیا ہے، لیکن معلوم نہیں اس میں کیا راز ہے کہ اہل سنت اس سے استفادہ کرے توقابل قبول ہے لیکن اگر شیعہ بولے تو کفر اور شرک ہے؟!!

عینی(صحیح بخاری کے مشرّح) عمدۃ القاری میں "بدااللہ" کی تشریح میں لکھتے ہیں:

((ای سبق فی علم اللہ فاراد اظھارہ و لیس المراد انّہ ظھرلہ بعد ان کان خافیاً، لانّ ذلک محال فی حق اللہ، "بداللہ" کا جملہ  یعنی وہ چیز جسے خدا ازل سے جانتا تھا اس نےارادہ کیا کہ اسے ظاہر کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نہیں جانتا تھااور اب اس پر ظاہر ہوا ہے، کیونکہ یہ خدا کے بارے میں ناممکن ہے۔))[7]

شیعہ بھی "بدا" سے اس کے علاوہ کسی اور معنی کا ارادہ نہیں کرتے، ان کی نگاہ میں  کسی پنہان چیز کا خدا پر ظاہر ہونا مراد نہیں ہے بلکہ خدا کا انسانوں پر (پوشیدہ شیء کو) ظاہر کرنا مراد ہے۔

جیسا کہ روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں:

((من زعم انّ اللہ یبدو  لہ فی شیء الیوم لم یعلمہ امس فابرءو منہ ، جو کوئی یہ گمان کرے کہ خدا پر ایسی چیز آج ظاہر ہوجاتی ہے جسے کل نہیں جانتا تھا، تو ایسے شخص سے بے زاری کا اظہار کرے۔))[8]

لہذا مسلمانوں پر تہمت لگانے سے پہلے ان "الفاظ" کے معنی میں غوروفکر کریں۔

تیسرا نکتہ:

وہ لوگ جو بدا کا انکار کرتے ہیں اور اسے خدا کی نسبت جہل و نادانی سمجھتے ہیں یہ لوگ نسخ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

حقیقت میں نسخ و بدا میں کوئی فرق نہیں ہے، صرف اس کے علاوہ کہ نسخ تشریعی امور میں ہے اوربدا تکوینی امور میں، یعنی جس طرح احکام کی تشریع میں، نسخ کے ذریعے قبلہ مسجد الاقصی سے تبدیل ہوکر مسجد الحرام بن گیا، نظام تکوین میں بھی قوم یونس کی عذاب دعا وگریہ زاری کی وجہ سے تبدیل ہوگئی اور ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔

اگر بدا کے بارے میں یہ کہیں کہ خدا پشیمان ہوگیا تو نسخ کے بارے میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں ۔ وہابیت کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بدا میں بھی اور نسخ میں بھی خدا ازل سے جانتا تھا کہ پہلا حکم کچھ عرصے بعد تبدیل ہوگا، یعنی یہ احکام شروع سے عام تھے لیکن حقیقت میں یہ احکام، مخصوص مدت کے لیے تھے یہ بات خدا ازل سے جانتا تھا اور اپنے وقت پر اسے ظاہر کرنا چاہتا تھا۔

چوتھا نکتہ:

 بدا کی حقیقت اس طرف پلٹتی ہے کہ انسان اچھے اعمال کے ذریعے بری تقدیر کو تبدیل کرتا ہے اور برے اعمال کے ذریعے اچھی تقدیر کو بدلتا ہے۔ تقدیر کی اس تبدیلی کا نام بدا ہے جس کا شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں۔

قرآن میں "بدا" کا لفظ اس کے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے لیکن بعض آیات سے بدا کا مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے منجملہ:

1۔ ((يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ وَ عِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ ،۔ اللہ جسے چاہتاہے مٹا دیتاہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے))[9]

اس آیت کی تفسیر میں پیغمبرﷺ سے روایت منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

((الصدقۃ علی وجھھا وبرّ الوالدین و اصطناع المعروف یحول الشقاء سعادۃ و یزید فی العمر و تقی مصارع السوء؛ راہ خدا میں صدقہ دینا، ماں باپ سے نیکی کرنا اور نیک کام کرنا، بدبختی کو خوشبختی میں تبدیل کرتے ہیں،  اور اس کی عمر دراز ہوجاتی ہے اوراسے برے موت سے بچاتے ہیں۔))[10]

2۔ قرآن حضرت یونس کے قوم کی تقدیر بدل جانے کے بارے میں فرماتا ہے :

((فَلَوْ لا كانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَها إيمانُها إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنا عَنْهُمْ عَذابَ الْخِزْيِ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ مَتَّعْناهُمْ إِلى‏ حين،کیا کوئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت ) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے) بہرہ مند رکھا۔))[11]

اس آیت کے مطابق قوم یونس خدا کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے تھے، یونس نے انہیں یہ خبر دی اور ان کو چھوڑ کے چلے گئے ، لیکن جب قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو وہ اپنے اعمال پر نادم ہوگئے اور صحرا میں جا کے گریہ و زاری شروع کیا، اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور عذاب ٹال دیا۔

قدرت الہی سے تقدیرکی اس تبدیلی کو "بدا" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہا جاتا ہے((بداء اللہ ان یعذّبھم)) یعنی پہلے ان پر عذاب ہونا مقرر ہوچکا تھا لیکن اللہ نے اسے بدل دیا اور نئی تقدیر رقم کی۔

3۔ قرآن فرماتا ہے: 

 إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِم؛ اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں))[12]

یہ آیت بھی واضح طور سے بیان کرتی ہے کہ قدرت الہی سے تقدیر تبدیل ہوجاتی ہے۔

لہذا تقدیر کی تبدیلی پر تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ شیعوں کا بدا سے مراد تقدیر کی تبدیلی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔اس معنی کے مطابق بدا کا معنی خدا سے جہل و نادانی کی نسبت دینا ہرگز نہیں ہے۔

مذکورہ آیات کے علاوہ قرآن میں اور بھی آیات ہیں جو بدا کے مفہوم پر دلالت کرتی ہیں یہاں مختصرا ان آیات کو بیان کریں گے:

1)   وہ آیات جو حتمی اور غیر حتمی قضا کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ جیسے: سورہ رعد آیت 39، اسی طرح وہ آیات جو اجل حتمی و غیر حتمی کے بارے میں ہے جیسے: سورہ انعام آیت3۔

2)   وہ آیات جو اسماعیل کے ذبح کرنے کے بارے میں حکم خدا کی تبدیلی کے بارے میں ہیں۔ جیسے: سورہ صافات کی آیات 102 سے 107 تک۔

3)   وہ آیات جو 40 سال سرزمین مقدس میں بنی اسرائیل کے داخلے کو ان کی نافرمانی کہ وجہ سے منع کرنے کے بارے میں ہیں۔ جیسے: سورہ مائدہ آیات 1سے6تک۔

4)   وہ آیات جو حضرت موسی کی میقات پر 10 روز کے اضافہ ہونے کے  بارے میں ہےیں جبکہ اصل وعدہ 30 دن کا تھا۔ جیسے: سورہ اعراف آیت 142۔

5)   وہ آیات جو ان اعمال جیسے:ایمان، تقوا، استغفار کی وجہ سے تقدیر کی تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں جیسے:سورہ اعراف آیت 96 اور سورہ نوح آیات10 اور 11، یا شب قدر کی راتوں میں دعا اور گریہ زاری کی حتمی تقدیر پر تاثیر سے گفتگو کرتی ہیں جیسے: سورہ دخان آیت4۔

لہذا بدا اصطلاحی لحاظ سے ایک قرآنی مسئلہ ہے اور تمام مسلمان عملی طور پر اس کے معتقد ہیں۔ اور کوئی بھی ان تبدیلیوں کو خدا کے جہل و نادانی کا لازمہ نہیں سمجھتے ہیں۔

اگر کوئی بھی فرد بدا کے اصطلاحی معنی سے انکار کرے تو اسے دعا کا بھی انکار کرنا چاہیے کیونکہ انسان دعا میں بھی حالت کی تبدیلی کا عقیدہ رکھتا ہے، کیا دعا تقدیر کی تبدیلی کی درخواست کے علاوہ کچھ اور ہے؟!

پانچواں نکتہ:

"بدا" اصطلاحی معنی میں بہت ہی اہم اور عظیم تربیتی اثرات کے حامل ہے۔ کیونکہ اگر بدا کا انکار کیا جائے تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ خدا نے قضا وقدر کے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور تقدیر کی تبدیلی کی کوئی امید باقی نہیں ہے۔ لہذا یہ عقیدہ رکھتے ہوئے موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی محرک نہیں۔ کیونکہ جو کچھ تقدیر میں لکھی گئی ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔

لہذا بدا کا عقیدہ ایک طرف سے انسان میں کام و کوشش کرنے کی خواہش کو جگاتا ہے تو دوسری جانب سے اسے نیک کام، عبادت، گریہ و زاری کی امید دلاتا ہے تاکہ ان کی انجام دہی سے غیر حتمی قضا کو خود سے دور کرلے۔

چھٹا نکتہ:

اعتراض کرتے وقت دو غیر متعلقہ موضوع کو ساتھ میں بیان کیا ہے: ایک یہ کہ شیعہ بدا کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ شیعہ ائمہ کے بارے میں علم غیب کا قائل ہیں۔اعتراض کرنے والے ان دو موضوعات کو ساتھ میں بیان کرکے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں کہ : پس شیعہ، اپنے اماموں کو خدا سے برتر مانتے ہیں۔

جو کچھ بیان ہوا اس سے اس بات کا بے بنیاد ہونا بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ پہلا یہ کہ: بدا کا عقیدہ رکھنے سے خدا کی نسبت جہل و نادانی کی نسبت لازمی نہیں، تاکہ اس سے یہ واہیانہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے۔ دوسرا یہ کہ علم ائمہؑ، علم خدا سے موازنہ  کرنے کے قابل ہی نہیں ہے کیونکہ علم امام، خدا کا عطاکردہ اور اس کی جانب سے افاضہ شدہ ہے جبکہ علم خدا، ذاتی اور استقلالی ہے۔ علم ائمہؑ، اذن خدا کے دائرے میں محدود ہے جبکہ علم خدا نامحدود اور بے نہایت ہے۔ دوسرے باب میں علم غیب ائمہ کے بارے میں تفصیلی بحث کریں گے۔

نتیجہ:

بدا کے بارے میں شیعہ وہی کہتے ہیں جو تمام مسلمانوں کا تقدیر کی تبدیلی کے بارے میں رائے ہے۔ بدا کا مفہوم یہ ہے کہ انسان نیک اعمال کی انجام دہی سے ایسا پس منظر فراہم کرتا ہے کہ خدا اس کے برے تقدیر کو نیکی میں تبدیل کرتا ہے یا برے اعمال کی انجام دہی سے نیک تقدیر کو برے تقدیر میں تبدیل کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر سب کا عقیدہ ہے۔ بدا کے لفظ کا مجازی معنی(ظاہر کرنا) میں استعمال،  سوء ظن اور مسلمانوں پر الزام کا باعث نہ بننے پائے۔

مزید مطالعہ کے لیے کتب

راہنمائے حقیقت، جعفر سبحانی

التمھید فی علوم القرآن، ج 2،  ہادی معرفت

 

 



[1] ۔ زمر/48

[2] ۔صحیح بخاری ج4ص146

[3] نمل/50

[4] ۔ نساء/ 142

[5] ۔ توبہ/67

[6] ۔ محمد/31

[7] ۔ عمدۃ القاری ج16ص48

[8] ۔کمال الدین و تمام النعمہ ج1ص70

[9] ۔ رعد/39

[10] ۔ عمدۃ القاری ج11ص181، الدرالمنثور جلد 4ص66

[11] ۔یونس/98

[12] ۔ رعد/11





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی