2024 April 24
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خلیفہ بلا فصل ہونے اور آپ کی امامت کے دلائل کا خلاصہ ۔
مندرجات: ١٩٩٠ تاریخ اشاعت: ٢٠ June ٢٠٢١ - ١٩:٤٦ مشاہدات: 4315
مضامین و مقالات » پبلک
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خلیفہ بلا فصل ہونے اور آپ کی امامت کے دلائل کا خلاصہ ۔

 
مطالب کی فہرست ۔۔

 1 – مذہب کے بارے میں تحقیق کرنا کیوں ضروری ہے؟                    2 - پیغمبر صلی ‌الله عليه وآله کی حدیث سے شیعوں کا نجات والا فرقہ ہونے کے دلائل

3 – حضرت علي عليه السلام  کے خلیفہ لا فصل ہونے پر قرآن و سنت سے دلائل ۔   

 4 - اگر علي عليه السلام خليفه بلافصل ہوتے تو کیا ہوتا ؟

 

 5 - علي عليه السلام کی بيعت نہیں کی ؟

 

 

1 – مذہب کے بارے میں تحقیق کیوں ؟

اللہ نے بہترین راستہ اختیار کرنے والوں کو بشارت دی ہے ۔

اللہ کا ارشاد گرامی ہے :

{فَبَشِّرْ عِبَادِي * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمْ اللهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الاَلْبَابِ} الزمر: 17 – 18

اے پیغمبر !آپ میرے ان بندوں کو بشارت دیں کہ جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں۔

 فرقہ ناجیہ کا گمراہ اور باطل فرقوں سے انتخاب :

شیعہ اور اھل سنت کے ہاں نقل شدہ معتبر روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : «وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً». میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں ایک کے علاوہ باقی سب جہنمی ہوں گے ۔

سنن الترمذي : ج 4 ص 135 ح 2779 .

كليني کہ جو شیعوں کا بہت بڑا عالم ہیں آپ  امام باقر عليه السلام سے اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی : «اثْنَتَانِ وسَبْعُونَ فِرْقَةً فِي النَّارِ وفِرْقَةٌ فِي الْجَنَّةِ» ان میں سے ۷۲ فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔

كافي: ج8 ص224 .

لہذا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے اس نورانی کلام کی رو سے ہمیں ناجی اور اھل حق فرقے کی پہچان اور اس کی پیروی کرنی چاہئے ۔

2 – شیعوں کا فرقہ ناجیہ ہونے کے بارے میں پیغمبر صلی ‌الله عليه وآله کی احادیث سے استدلال ؛

قیامت کے دن بشارت :

پیغمبر صلي الله عليه واله وسلم نے اميرالمؤمنين علي عليه السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيِدِهِ إِنَّ هَذَا وشيعَتَهَ لَهُمُ الفَائِزُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ» اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (علي عليه السلام) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے .

 فتح القدير ج 5 ص 477

حضرت علي عليه السلام کے شیعوں کو بہشت کی بشارت :

ابن مَرْدَوَيْه نے حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اس امت کے ۷۳ فرقے ہوں گے سب جہنم میں چلے جائیں گے سوای ایک کے «وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهُمْ أَنَا وَشِيْعَتِي» ایک فرقہ بہشت میں جائے گا اور وہ میں اور میرے شیعہ ہوں گے ۔   مناقب ابن مردويه ص44.

اهل بيت  نجات کی کشتی ہیں  :

حاكم نيشابوري نے رسول اكرم صلی ‌الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : مَثَلُ أَهْلٍ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا ، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ» میرے اھل بیت کی مثال حضرت نوح کی کشتی کی ہے ،جو اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے گا، جو اس میں سوار نہیں ہوگا وہ گمراہی کے دریا میں غرق ہوگا۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے : یہ روایت صحیح ہے اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے .

مستدرك ج 2 ص 343.

3 –قرآن و سنت سے امامت الهي اور علي عليه السلام  کی خلافت بلا فصل ہونے کے دلائل ۔

آيه ولايت:

{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ} .

المائدة : 55.

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔

  اهل سنت کے بزرگ علماء نے مجاهد سے یہ روایت نقل کی ہے {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ} نَزَلَتْ فِي عَلي بن أبي طالب تَصَدَّقَ وَهُوَ راكِعٌ. جس وقت علی ابن ابی طالب حالت رکوع میں تھے اور آپ نے حالت رکوع میں صدقہ دیا تو یہ آیت آپ کی شان میں نازل ہوئی  تفسير الطبري ج 6 ص 390

اسی طرح  ابن ابي حاتم از عتبه بن ابي حکيم نے اسی مطالب کو نقل کیا ہے .تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162 .

ابن تيميه ان دو تفاسیر کے بارے میں کہتا ہے : تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في التفسير  طبري اور ابن ابي حاتم کی تفاسیر  ایسی تفاسیر میں سے ہیں کہ کہ جن میں ایسی احادیث اور باتیں موجود ہیں کہ جن پر قرآن کی تفسیر کے لئے اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔

آلوسي سلفي کہتا ہے: « وغالب الأخباريّين على أنّ هذه الآية نزلت في ‌علي‌» اکثر اخباریوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی ہے .تفسير روح المعاني ج6ص167.

اسی طرح آلوسی کہتا ہے: «والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي» اکثر محدثین کا یہ نظریہ ہے کہ آیت، علي بن ابي طالب کے بارے نازل ہوئی ہے .

تفسير روح المعاني ج6ص186.

آيه ابلاغ:

{يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} المائدة: 67.

اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اھل سنت کے بڑے عالم ابن ابي حاتم نے ابو سعيد خُدْرِي سے نقل کیا ہے  : «نزلت هذه الآية . . . في علي بن أبي طالب» یہ آيه ابلاغ حضرت علی ابن ابی  طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172.

آلوسی کہ جو اھل سنت ہی بڑے علماء سے ہیں۔ انہوں نے عبد الله بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم  رسول الله صلي الله عليه وآله کے زمانے میں  اس آیت کی اس طرح سے تلاوت کرتے تھے : «بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ جو چیز آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے "علی مومنوں کے ولی ہیں " اس کو لوگوں تک پہنچائے اگر ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کے کام کو نہیں پہنچایا۔

روح المعاني ج6 ص193

سيوطي ،شوكاني ، محمد رشيد رضا وغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے .

الدر المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 والمنار: ج 6ص463 .

آيه اکمال دين:

{أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِسْلاَمَ دِيناً}. المائدة: 3

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.

خطيب بغدادي کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،انہوں نے ابوهريره سے نقل کیا ہے : غدير خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علي بن ابي طالب علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا : «أَلَسْتُ وَلِيَّ المُؤْمِنِين؟» کیا میں مومنوں کے ولی اور ان کا سرپرست نہیں ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ۔ اس وقت آپ نے فرمایا : «مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» جس کا میں مولی ہوں علی اس کا مولا ہیں  . اس کے بعد عمر بن خطاب نے کہا  : اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک ہو ، آپ میرے اور سارے مسلمانوں کے ولی بن گئے  اور پھر یہ آیت نازل ہوئی "آج آپ کے دین کو ہم نے کامل کیا (اس روایت کی سند معتبر ہے )

تاريخ بغداد ج8 ص284

ابن کثير کی نقل کردہ روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا : «أَصْبَحْتَ الْيَومَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» يا علي! آج کے بعد آپ تمام مومنوں کے ولی بن گئے.

البداية والنهاية ج 7 ص350 .

سنت اور ادله امامت الهي و خلافت بلا فصل علي عليه السلام ۔

حديث ولايت:

حاكم نيشابوری کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے  پیغمبر صلي الله عليه وآله کی یہ روایت نقل کی ہے : «إنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي» علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔

یہ روایت مسلم کی شراط کے مطابق صحیح ہے اسی طرح ذھبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا یے .

مستدرك ج 3 ص 110

وهابي فکر والے بڑے عالم آلبانی نقل کرتا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے  اميرالمؤمنين عليه السلام سے خطاب میں فرمایا : «أَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» تم میرے بعد تمام مومنین مرد اور عورتوں کے ولی ہیں. حاکم  اور ذهبي نے اس  روايت کو صحیح قرار دیا ہے  جب ان دو نے کہا ہے تو اس روایت کی سند صحیح ہے۔

السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص263 . المستدرك ج3 ص133.

حديث الخلافة :

ابن أبي عاصم کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے پیغمبر صلی الله عليه وآله کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آپ نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «وَأنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي» آپ میرے بعد میرا جانشین اور تمام مومنوں کے ولی ہیں ۔

 كتاب السنة 551 .

 

وھابی عالم آلبانی نقل کرتا ہے : پیغمبر صلی الله عليه وآله نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «لَا يَنْبَغِي اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي» سزاوار نہیں ہے کہ میں جاوں مگر یہ کہ آپ میرا جانشین ہو ۔  الباني کہتا ہے کہ : حاکم اور ذهبي نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔جس طرح سے ان دو نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ،یہ صحیح ہے ۔

سلسلة الصحيحة ج 5 ص263 .

حديث امامت:

حاكم نيشابوري نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے فرمایا : مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ «علي إمام المتقين» علی متقین کے امام ہیں. اس روايت کی سند بھی صحیح ہے .

مستدرك حاكم ج3 ص133 .

خوارزمي کہ جو اهل سنت کے علماء میں سے ہے ،انہوں نے رسول اللہ  صلی ‌الله عليه وآله، سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : «أَنْتَ إِمَامُ كُلِّ مُؤْمنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» آپ تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے امام ہیں .  مناقب ص 61.

امام باقر عليه السلام نے آیت ولاية ، آیت ابلاغ  اور آیت  اكمال کے ذریعے سے امام علی علیہ السلام کی ولایت اور خلافت پر استدلال کیا ۔

كليني نے صحیح سند نقل کیا ہے کہ امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اللہ نے رسول اكرم صلی الله عليه وآله کو ولايت علي عليه السلام کے اعلان کا حکم دیا ، سوره مائده آيه 55 ، {إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ...} کو نازل کیا «وفَرَضَ وَلَايَةَ أُولِي الْأَمْرِ» اور اولی الامر کی ولایت کو ضروری قرار دیا۔

اسی طرح سوره مائده کی آيه 67 میں فرمایا  «يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ‏ مِنْ رَبِّكَ» اس میں آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ جو بات آپ پر وحی ہوئی ہے وہ آپ لوگوں تک پہنچائے اور  رسول اللہ صلی ‌الله عليه وآله نے بھی اللہ کے حکم کو عملی جامعہ پہنایا « فَقَامَ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ × يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ» اور غدیر کے دن علي عليه السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اس حکم کو جو غائب ہیں ان تک پہنچائے .

پھر امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اور اس آخری واجب کو کہ جو حضرت علي عليه السلام کی ولایت تھا، سوره مائده کی آیت نمبر ۳ کی نزول کے بعد کامل کیا ،{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ‏ وأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} آج آپ کے دین کو کامل کیا اور آپنی نعمتوں کو آپ پر کامل کیا «قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ» در حقیقت سارے واجبات کو آپ پر مکمل کیا ۔كافي، ج1، ص 289 ح 4.

4 - اگر حضرت علي عليه السلام خليفه بلافصل ہوتے تو کیا ہوتا؟

علي عليه السلام كتاب اور  سنت پر عمل کرنے کا زمینہ فراہم کرتے :

اهل سنت کے علماء میں سے ابن شُبّه نُمَيري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے  ابن عباس نے نقل کیا ہے : إنَّ أَحْراهُمْ إنْ وَلِيَهَا أَنْ يَحْمِلَهُمْ عَلَى كِتَابِ اللّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَاحِبُكَ، يَعِنِي عَلِيّاً. جو شخص مسلمان کو قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرانے کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور اھلیت رکھتا ہے ، وہ آپ کے  دوست علی ابن ابی طالب ہیں ،

تاريخ المدينة المنورة ج 3 ص 883.

لوگوں کو صراط مستقم کی طرف دعوت دینے کا باعث بنتے :

حنبلي فرقے کے بڑے امام ، احمد بن حنبل نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے صحیح سند روایت نقل کیا ہے : واِن تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا رضي الله عنه وَلاَ أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ.

اگر علي کو  امير (المؤمنين) قرار دئے تو { اگرچہ میں جانتا ہوں ایسا نہیں کروگے  }  تو آپ سب لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لے جاتے ۔

مسند أحمد ج 1 ص 537.

ابو نعيم اصفهاني کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہے انہوں نے  رسول اللہ  صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «إِنْ تَسْتَخْلِفُوا عَلِيّاً وَمَا أَرَاكُمْ فَاعِلِينَ تَجِدُوهُ هَادِياً مَهْدِيّاً ، يَحْمِلُكُمْ عَلَى الْمَحَجَّةِ الْبَيْضَاءِ». آگر علی کو اپنا خلیفہ قرار دئے آگرچہ میں جانتا ہو تم لوگ ایسا نہیں کرو گے، تو تم لوگ ان کو ہدایت کرنے والے اور اھل ہدایت پاتے یہ  تم لوگوں کو روشن اور سیدھے راستے پر چلاتے ۔

حلية الأولياء ج 1 ص 64.

اسلامی اتحاد کا موجب بنتے :

حاكم نيشابوري نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ علي عليه السلام سے فرمایا : «أَنْتَ تُبَيِّنُ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي». تم ای علی میرے بعد، جو فتنہ اور اختلاف ہوگا، تم اس کو صاف اور روشن کرو گے.

 آپ میرے بعد میری امت کو اس چیز کو بیان کریں گے جس میں وہ لوگ اختلاف کرئے ۔ یہ روایت صحیح اور صحیح بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ۔

المستدرك: ج 3 ص 122.

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : «وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْاِخْتِلافِ» میرے اھل بيت امت کے لئے اختلافات سے آمن اور  امنیت  کا باعث ہے اور جو بھی قبیلہ ان سے اختلاف کرئے وہ شیطان کے گروہ سے ہے۔

یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔

مستدرك ج 3 ص 149.

لوگوں کی دنیوی زندگی میں آسائش اور رفاہ کا باعث :

حضرت صديقه طاهره سلام اللہ علیہا نے اپنے مشہور خطبے میں ارشاد فرمایا : «يَالَلّهِ لَوْ تَكَافَؤُا عَلِي زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله ...لَفُتِحَتْ عَلَيْهِمْ بَرِكَاتٌ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» اللہ کی قسم ! اگر زمام خلافت کو اسی کے حوالے کرتے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معین فرمایا تھا تو زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے ان پر کھل جاتے .

بلاغات النساء، ص24 .

سلمان نے فرمایا : «لَوْ بَايَعُوا عَلِيّاً لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ» اگر علی کی بیعت کرتے تو آسمان اور زمین کی برکتوں سے استفادہ کرتے ۔

أنساب الأشراف ج 2 ص 274. مصنف ابن أبي شيبة ج 7 ص 443.

حضرت امير عليه السلام نے فرمایا : «وَلَو أَنَّ الْأُمَّةَ مُنْذُ قَبَضَ اللهُ نَبِيَّهُ، اِتَّبَعُونِي وَأَطَاعُونِي لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتَ أَرْجُلِهِم رَغَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». اگر امت پیغمبر صلی الله عليه وآله کی رحلت کے وقت میری اتباع اور اطاعت کرتے تو زمین اور آسمان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے اور قیامت تک خوش اور آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے۔ .

كتاب سليم بن قيس ج 1 ص 658 و احتجاج طبرسي ج 1 ص 223.

اخروی زندگی میں سعادت کے ضامن :

عبد الرزاق صنعاني نے عبد الله بن مسعود کے توسط سے  رسول اكرم صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيده، لَئِنْ أَطَاعُوهُ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ أَجْمَعِينَ أَكْتَعِينَ». اگر لوگ میرے بعد علي عليه السلام کی اطاعت کرئے تو سب کے سب ایک ساتھ جنت میں داخل ہوجاتے ۔

المصنف، ج 11، ص 317.

5 – کیوں حضرت علي عليه السلام کی بیعت نہیں کی گئی؟

خود خواهي اور  انحصار طلبي:

حضرت علي عليه السلام نے اپنے دوستوں کے اس سوال کے جواب میں فرمایا " آپ کی قوم (قريش)، نے کیوں آپ کو مقام  (خلافت) سے ہٹایا، جب کہ آپ سب سے زیادہ اس مقام کے لایق تھے ؟

آپ نے فرمایا : دوسروں کا اس بارے میں ہمارے ساتھ استبداد – اس چیز کے باوجود کہ ہم نسب کے اعتبار سے سب سے بلند اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کی سے رشتہ داری کے اعتبار سے  سب سے زیادہ مستحکم  «فَإِنَّهَا كَانَتْ أَثَرَةً شَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ آخَرِينَ وَ الْحَكَمُ اللَّهُ وَ الْمَعْوَدُ إِلَيْهِ الْقِيَامَةُ»  خودخواهى اور انحصارطلبى کی وجہ سے بعض نے ہمارے ساتھ بخل سے کام لیا اور بعض نے سخاوت مندانہ طریقے سے اس سے ہاتھ اٹھایا، (اور کوئی حق نہ ہونے کے باوجود ہمارے حق کو غضب کیا اللہ ہی ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرئے گا ۔اور قیامت کے دن ہم  سب کی بازگشت اللہ کی طرف ہی ہے (ہمارا اور ان کا وعدہ گاہ قیامت کا دن ہے ).

 

 

 

 أبو يَعْلَى  کہ جو  اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،انہوں نے  حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ رسوال اللہ صلی الله عليه وآله مجھے بغل گیر کیا  اور بلند آواز سے روئے. میں نے کہ : يا رسول الله کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا: «ضَغَائِنٌ فِي صُدَورِ أَقْوامٍ لَا يُبْدُونَهَا لَكَ إِلَّا مِنْ بَعْدِي» اس کینے کی وجہ سے کہ جو لوگوں کے دلوں میں آپ کی نسبت سے موجود ہے اور میرے بعد یہ آشکار ہوگا۔

مسند أبو يعلى ج 1 ص 427 ح 565. .

 خيانت اور  وعدہ خلافی :

حاكم نيشابوري نے حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے : «إنَّ مِمَّا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُ صلى الله عليه وسلم أَنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِي بَعْدَهُ»  پیغمبر اكرم صلی الله عليه وآله نے مجھے فرمایا : امت عنقریب مجھ سے خیانت کرے گی۔  

اس روایت کی سند بھی صحیح ہے .

مستدرك ح 3 ص 150 ح 4676.

قریش کا پیغمبر صلی الله عليه وآله کی نسبت سے چھپائے ہوئے کینہ اور دشمنی :

حضرت علي عليه السلام فرماتے ہیں : اے اللہ ! میں آپ سے قریش کی نسبت سے مدد کا طالب ہوں «فَإِنَّهُمْ أَضْمَرُوا لِرَسُولِكَ ضُرُوباً مِنَ الشَّرِّ وَالْغَدْرِ فَعَجِزُوا عَنْهَا وَحُلْتَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهَا فَكَانَتِ الْوَجْبَةُ بِي وَالدَّائِرَةُ عَلَيَّ» ان لوگوں نے آپ کے رسول صلی الله عليه وآله کی نسبت سے بہت سے کینہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے اور اس کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز تھے اور آپ در واقع ان کے لئے مانع تھے اور ان کی نیات کو عملی جامعہ پہنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے لیکن اب میری باری ہے ان لوگوں نے اب میری طرف ہجوم لایا ہے { آپ کا انتقام مجھ سے لینا چاہتے ہیں ).

اے اللہ ؛ میرے حسن و حسين کی حفاظت فرما، جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک انہیں قرش کے گزند سے محفوظ فرما اور میرے دنیا سے جاننے کے بعد بھی تو ان کے محافظ ہے اور آپ ہر چیز پر شاہد ہیں ۔

شرح نهج البلاغة: ج 20 ص 298.

حضرت علي عليه السلام کی تلوار کا انتقام :

حَسَكاني کہ جو  اهل سنت  کے علماء میں سے ہے  ،انہوں نے  امام باقر عليه کے واسطے سے  نقل کیا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله کو حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے ولی بنانے کا حکم دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ

 حکم دیا کہ حضرت علی ع کو مومنوں کے ولی کے طور پر اعلان کرئے ، آنحضرت  صلی الله عليه وآله نے  فرمایا : «يَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِي قَرِيبُوا عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيِّةِ وَفِيهِمْ تَنَافُسٌ وِفَخْرٌ ، وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ اِلَّا وقد وتره وليهم اے اللہ  (قريش کہ جو عصر جاہلیت کے نذدیک ہے {تازہ مسلمان ہوا ہے اور اسلام ابھی ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا ہے} اور یہ لوگ رقابت اور تفاخر کی ذھنیت کے مالک ہیں ، مجھے اس چیز کا خوف ہے کہ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے قریبی رشتہ دار علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس وقت جيرئيل سوره مائده کی آيه 67 لے کر نازل ہوئے اور یہ پیغام دیا ہے آپ ولایت علی علیہ السلام لوگوں تک پہنچائے «وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ» اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔

شواهد التنزيل ج 1 ص 254.

حضرت صديقه طاهره نے مسجد میں آپنے شعلہ بیان خطبے میں فرمایا : «نقموا من أبي حسن ! نقموا واللّه نكيرَ سيفه!»  علي عليه السلام سے تم لوگوں نے انتقام لیا ! اللہ کی قسم علی کی تلوار کی ضربت کا انتقام لیا  (اور انہیں خلافت سے دور کیا ).

بلاغات النساء لابن طيفور: 20.

ابن ابي الحديد نے حضرت امير عليه السلام سے نقل کیا ہے : «مَالِي وَلِقُرَيْشٍ! إِنَّمَا وَتَرْتُهُمْ بِأَمْرِ اللّهِ وَأَمْرِ رَسُولِهِ» قریش کی مجھ سے اتنی دشمنی کیوں ؟ اگر میں نے عصر جاہلیت میں ان کے کسی کو قتل کیا ہے تو یہ اللہ اور اللہ کے رسول  صلی الله عليه وآله کے حکم سے ایسا کیا ہے ،تو کیا یہ اللہ اور اللہ کے پیغمبر کی اطاعت کا صلہ ہے  ؟

شرح نهج البلاغة: ج20 ص 328.

 




Share
1 | Asim | | ١٣:٢٨ - ١٥ January ٢٠٢٣ |
خلیفہ بلا فصل پہلے خلیفے افضل البشر بعد از انبیاء ( حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ھیں

میرا ایمان ہے
نعوذباللّٰه (اگر حضرت علی علیہ السلام سے زبردستی خلافت لی ہوتی تو کوئی صحابی بھی حضرت علی علیہ السلام کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا)
خود حضرت علی علیہ السلام نے پہلے تینوں خلیفہ کی بیعت کی ھے

جواب:
 سلام علیکم۔۔
 
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوبکر کو اپنا جانشین اور خلیفہ نہیں بنایا ۔۔ لہذا ان کو اللہ اور اللہ کے رسول کا بنایا ہوا اور منتخب کیا ہوا خلیفہ کہنا صحیح نہیں ہے اور ایسا اعقاد رکھنا اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف غلط نسبت ہے ۔۔۔
 لہذا ان کو خلیفہ بلافصل کہنا اس عنوان سے نہیں ہوسکتا کہ جناب ابوبکر اللہ اور اللہ کے رسول کا انتخاب کیا ہوا اور بنایا ہوا خلیفہ ہے۔
 
 
جہاں تک اصحاب کا بعد از رسول انہیں خلیفہ بنانے کی بات ہے تو
پہلی بات تو یہ ہے  کہ  ان کی خلافت کو کوئی نہ ماننے تو وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت شمار نہیں ہوگی ۔۔۔
دوسرے الفاظ میں اس انکار کو اللہ اور اللہ کے رسول کے انتخاب کا انکار اور نافرمانی کہنا صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔
 
دوسری بات : لوگوں کے انتخاب کو خلیفہ بلا فصل کہنااور اس پر اپنا عقیدہ بنانا اور اس خلافت پر  ایمان کو لازمی سمجھنا بے معنی ہے ،کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ لوگوں نے اپنے لئے ایک حاکم کا انتخاب کیا  اب لوگوں کے اس انتخاب کو ایمان کا حصہ بنانا اور اس پر اعقاد نہ رکھنے کو گمراہ سمجھنا سمجھ سے باہر ہے۔۔۔۔ 
جہاں تک ان کے انتخاب پر اجماع وغیرہ کا تعلق ہے تو پہاں بھی اجماع نام کی کوئی چیز نہیں ہے نہ کسی سے ان کے انتخاب کے لئے مشورہ لیا گیا ہے نہ کسی کو ان کی بیعت کرنے یا نہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑا ہے ۔۔۔۔۔
 
 
دیکھیں www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php خلفاء کو اپنی خلافت پر یقین نہیں تھا
www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php خلفاء کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام کا موقفwww.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php خلیفہ بلا فصل علی ابن ابی طالب[ع] ہی ہیں
 
 
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی