2024 March 29
سورہ نور آیت 55 ’’ (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ ) کیا ابوبکر اور عمر کی خلافت پر دلیل ہے ؟
مندرجات: ٢١٤٦ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:١٢ مشاہدات: 3683
سوال و جواب » امام حسین (ع)
سورہ نور آیت 55 ’’ (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ ) کیا ابوبکر اور عمر کی خلافت پر دلیل ہے ؟

 

سورہ نور  آیت 55 ’’   (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ ) کیا جناب ابوبکر اور عمر

کی خلافت پر دلیل ہے ؟

قوله تعالي (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ  قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَي لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ) (النور:55)

 تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں ۔

آیت کی مختصر تفسیر ــ

شیخ محسن علی نجفی صاحب کی تفسیر الکوثر سے ۔۔۔۔

خلافت سے مراد صرف غلبہ اور اقتدار نہیں ہے، جیساکہ بعض لوگ کہتے ہیں، بلکہ جس خلافت کا اس آیت میں وعدہ دیا جا رہا ہے وہ درج ذیل اصولوں پر قائم ہے۔ i ایمان۔ii عمل صالح   iii۔ ان کے پسندیدہ دین کی پائداری۔ iv خوف کے بعد امن۔ v شرک سے پاک خالص اللہ کی بندگی۔ لہذا ہر منصف اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی بات ہو رہی ہے جن کے اقتدار کے سائے میں دین کو استحکام ملے گا۔ واضح رہے حکومت کا استحکام اور ہے اور دین کا استحکام اور ہے، بلکہ مسلمانوں کا استحکام اور ہے اور اسلام کا استحکام اورہے۔ ممکن ہے کسی دور میں اسلام کے زرین اصولوں کے استحکام کے لیے جنگ لڑی جار ہی ہو، مسلمانوں میں بے چینی ہو، لیکن اسلام کو تحفظ مل رہا ہو۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کی حکومت کو تو استحکام ہو لیکن اسلامی اصول پامال ہو رہے ہوں اور دین کی تمکین و استحکام، اس کے نظام عدل و انصاف کا قیام، ہر قسم کے ظلم و زیادتی کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور ہر قسم کے شرک سے پاک اللہ کی بندگی ہے اور ظہورمہدی (عج) کے بعد ہی یہ وعدہ پورا ہو سکتا ہے۔

جواب  :

اولاً : اگر اہل سنت کا یہ ادعا صحیح ہو تو ابوبكر نے خود ہی سقيفه میں دوسری چیزیوں سے استدلال کیا لیکن اس آیت سے استدلال کیوں نہیں کیا ؟

ثانيا : ابوبکر کی بیٹی جناب عائشہ واضح طور پر کہتی ہے کہ اللہ نے ہمارے بارے کوئی آیت نازل نہیں کی :

ما انزل الله فينا شيئا من القرآن .

صحيح البخاري ، البخاري ، ج 6 ، ص 42 .

اللہ نے قرآن میں ہمارے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں کی .

ثالثاً : اہل سنت کے علماﺀ نے ہی اس کا جواب دیا ہے ، اهل سنت کے مشہور مفسر شوکانی نے اس بارے میں لکھا ہے  :

( وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ) هذه الجملة مقررة لما قبلها من أن طاعتهم لرسول الله صلي الله عليه وآله وسلم سبب لهدايتهم ، وهذا وعد من الله سبحانه لمن آمن بالله وعمل الأعمال الصالحات بالاستخلاف لهم في الأرض لما استخلف الذين من قبلهم من الأمم ، وهو وعد يعم جميع الأمة . وقيل هو خاص بالصحابة ، ولا وجه لذلك ، فإن الإيمان وعمل الصالحات لا يختص بهم ، بل يمكن وقوع ذلك من كل واحد من هذه الأمة ، ومن عمل بكتاب الله وسنة رسوله فقد أطاع الله ورسوله .

یہ جملہ حقیقت میں اس سے پہلے والے کی تائید اور تفسیر کرتی ہے ،اس کا معنی یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری ان لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کا سبب بنے گا ۔ اللہ کا یہ وعدہ اہل ایمان میں سے نیک اعمال انجام دینے والوں کے لئے ہے  تاکہ اس طرح یہ لوگ زمین پر تسلط اور جانشن بنے کے اسباب کو فراہم کرسکے ،جیساکہ سابقہ امتوں کا بھی یہی حال تھا لہذا یہ عمومی وعدہ ہے ساری امت اسلامی کو یہ وعدہ شامل ہے ،اگرچہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ وعدہ بعض اصحاب کے ساتھ  مخصوص ہے ،لیکن اس نظریے کی کوئی قیمت نہیں ،کیونکہ ایمان اور عمل صالح اصحاب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔  

لہذا یہ امت اسلامی کے ہر اس فرد کو شامل ہے کہ جس میں شرط پائی جائے یہ ہر اس کو شامل ہے کہ جو قرآن اور سنت پر عمل کرئے یعنی وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے مطیع اور فرمانبردار ہو ۔

آگے شوکانی لکھتے ہیں :

ومعني ليستخلفنهم في الأرض : ليجعلنهم فيها خلفاء يتصرفون فيها تصرف الملوك في مملوكاتهم ، وقد أبعد من قال إنها مختصة بالخلفاء الأربعة ، أو بالمهاجرين ، أو بأن المراد بالأرض أرض مكة ، وقد عرفت أن الاعتبار بعموم  اللفظ لا بخصوص السبب ، وظاهر قوله ( كما استخلف الذين من قبلهم ) كل من استخلفه الله في أرضه فلا يخص ذلك ببني إسرائيل ولا أمة من الأمم دون غيرها .

فتح القدير ، الشوكاني ، ج 4 ، ص 47 .

زمین میں خلیفہ بنانے کا مطلب یہ ہے  : کہ ہم ان کو زمین کا حاکم بنادیں گے تاکہ جس طرح سے سابقہ بادشاہ اور سلاطین جن چیزوں پر تصرف کرتے تھے ، یہ لوگ بھی تصرف کریں ۔ جن لوگوں نےاس آیت کو چار خلفاﺀ یا مہاجرین کے ساتھ مخصوص سمجھا ہے، ان لوگوں نے زمین سے مراد بھی مکہ کی سرزمین لیا ہے اور یہ ںظریہ حقیقت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ استخلاف کا لفظ عام ہے یہ سارے مومنین کو شامل ہے،یہ مومنین کے کسی گروہ سے مخصوص نہیں ہے ۔ لہذا یہ آیت بنی اسرائیل یا کسی خاص امت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔

نسفي نے اپنی تفسير میں لکھا ہے  :

(ليستخلفنهم في الأرض ) * أي أرض الكفار وقيل أرض الكفار وقيل أرض المدينة والصحيح أنه عام لقوله عليه الصلاة والسلام ليدخلن هذا الدين علي ما دخل عليه الليل .

تفسير النسفي ، النسفي ، ج 3 ، ص 154 .

آیت کے اس حصے کے معنی میں بعض نے کہا ہے  : الأرض سے مراد مکہ کی سرزمین ہے ، بعض نے کہا ہے اس سے مراد کفار کی زمین ہے اور اسی طرح بعض نے مدینہ کی سرزمین مراد لیا ہے ۔ لیکن اس کی صحیح اور دقیق تفسیر یہ ہے کہ اس کا معنی عام ہے اور اس کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم کی یہ حدیث ہے ’’ جہاں رات ہوتی ہے وہاں تک یہ دین پھیل جائے گا ۔

  

  قرطبي کہ جو اہل سنت کے ہی بزرگ مفسر ہیں وہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

قوله تعالي : ( ليستخلفنهم في الأرض ) فيه قولان : أحدهما ، يعني أرض مكة ، لان المهاجرين سألوا الله تعالي ذلك فوعدوا كما وعدت بنو إسرائيل ، قال معناه النقاش . الثاني ، بلاد العرب والعجم . قال ابن العربي : وهو الصحيح ، لان أرض مكة محرمة علي المهاجرين ، قال النبي صلي الله عليه وسلم : ( لكن البائس سعد بن خولة ) . يرثي له رسول الله صلي الله عليه وسلم أن مات بمكة . وقال في الصحيح أيضا : ( يمكث المهاجر بمكة بعد قضاء نسكه ثلاثا ) .

تفسير القرطبي ، القرطبي ، ج 12 ، ص 299 - 300

اس : «ليستخلفنهم في الأرض» کے معنی کے بارے میں دو قول ہے  : الف : اس سے مراد مکہ کی سرزمین ہے ،کیونکہ مہاجرین نے اللہ سے آمن و سکون کا تقاضا کیا تھا اور اللہ نے جس طرح بنی اسرائیل والوں کو وعدہ دیا تھا ،انہیں بھی وعدہ دیا تھا ،یہ نظریہ نقاش نامی ایک شخص کا نظریہ ہے  .

 ب : اس سرزمین سے مراد عرب و عجم کی سرزمینیں ہیں ،یہ قول صحیح ہے اور یہ ابن عربی کا نظریہ ہے ۔

کیونکہ مکہ کی سرزمین مہاجرین پر حرام ہوئی تھی ،جیساکہ صحیح سند روایات میں ہیں کہ مہاجرین ،حج کے اعمال انجام دینے کے بعد صرف تین دن مکہ میں رہ سکتے تھے ۔لیکن سعد بن خوله جیسا بدبخت انسان کہ جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : یہ اتنا شہر مکہ میں رہا یہاں تک کہ وہ دنیا سے چلا گیا ۔

رابعاً : اس آیت کی رو سے اللہ تمام اہل ایمان کو پوری زمین پر مسلط کرئے گا  (لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ) . یہاں ارض کسی خاص مکان کے ساتھ خاص نہیں ہے ،یہ تمام ممالک کو شامل ہے ،جیساکہ اہل سنت کے بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے اور  « الارض » سے مراد پوری دنیا کے ممالک کو لیا ہے ؛

ثعلبي نے آپنی تفسیر میں کہا ہے  :

والله ليستخلفنهم في الأرض أي ليورثنهم أرض الكفار من العرب والعجم ، فيجعلهم ملوكها وسائسيها وسكانها .

تفسير الثعلبي ، الثعلبي ، ج 7 ، ص 114 .

اللہ ان لوگوں کو زمین کے وارث بنا دیں گے  ؛ یعنی کفار چاہئے عرب ہو یا عجم سب کی زمینوں پر انہیں حاکم بنادیں گے اور یہ ان لوگوں کے لیڈر اور سیاست مدار ہوں گے ۔

واحدي نے بھی لکھا ہے :

وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض ) * ليورثنهم أرض الكفار من العرب والعجم .

تفسير الواحدي ، الواحدي ، ج 2 ، ص 768 .

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ صالح لوگوں کو کفار چاہئے عرب ہو یا عجم کی زمینوں پر کردئے گا۔  

  ابن جوزي کہتا ہے  :

قوله تعالي : * ( ليستخلفنهم ) * أي : ليجعلنهم يخلفون من قبلهم ، والمعني : ليورثنهم أرض الكفار من العرب والعجم ، فيجعلهم ملوكها وساستها وسكانها .

زاد المسير ، ابن الجوزي ، ج 5 ، ص 372 .

اس (ليستخلفنهم) کا معنی یہ ہے کہ ،صالح لوگوں کو زمین پر جانشین بنا دئے گا،در حقیقت کفار چاہئے عرب ہو یا عجم ، ان کی زمینوں کا وارث بنا دے  گا ۔ ان کو بادشاہ اور سیاست مدار بنا دئے گا ۔

   الغرناطي الكلبي نے اپنی تفسیر  میں لکھا ہے  :

( ليستخلفنهم في الأرض ) * وعد ظهر صدقه بفتح مشارق الأرض ومغاربها لهذه الأمة .

التسهيل لعلوم التنزيل ، الغرناطي الكلبي ، ج 3 ، ص 71 .

آيت کے اس حصے میں اللہ نے اپنے وعدے کی سچائی کو مشرق اور مغرب فتح کرنے کے ساتھ مشروط کیا ہے  .

جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر کے دور حکومت  میں ساری سرزمینوں کو فتح کرنا تو دور کی بات ہے، خود عرب کی ساری سرزمینی بھی ابھی فتح نہیں ہوئی تھی ۔  

لہذا یہ آیت سارے خلفاﺀ ثلاثہ سے مخصوص نہیں ہے۔

یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ سب کا اتفاق نظر ہے کہ آپ جب ظہور فرمائیں گے تو زمین سے کفر والحاد کا خاتمہ ہوگا اور سب جگہ دین اسلام کا بول بالا ہوگا۔

 

 خامساً :

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے  کہ ذیل کی آیت میں اللہ کا ارشاد ہے :

وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَي لَهُمْ .

 

 

اہل سنت کے بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرئے گا ، سب جگہ صرف دین اسلام  کا غلبہ ہوگا او باقی ادیان ختم ہوجائیں گے ۔

 أبي عبد الله محمد بن عبد الله بن أبي زمنين نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے :

( وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضي لهم ) * أي : سينصرهم بالإسلام ؛ حتي يظهرهم علي الدين كله ؛ فيكونوا الحكام علي أهل الأديان .

بہت جلد اسلام کے ذریعے سے ان لوگوں کی نصرت کرئے گا، یہاں تک کہ ان کو تمام ادیان پر مسلط کرئے گا لہذا یہ لوگ تمام باقی ادیان کے پیروکاروں پر حاکم ہوں گے ۔

اس بڑے مفسر نے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے  :

يحيي : عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن [ سليم ] بن عامر الكلاعي قال : سمعت المقداد بن الأسود يقول : سمعت رسول الله يقول : لا يبقي علي ظهر الأرض بيت مدر ولا وبر ، إلا أدخله الله كلمة الإسلام بعز عزيز أو ذل ذليل ؛ إما يعزهم الله فيجعلهم من أهلها ، وإما يذلهم فيدينون لها .

تفسير ابن زمنين ، أبي عبد الله محمد بن عبد الله بن أبي زمنين ، ج 3 - ص242 - 244 .

سليم بن عامر كلاعي کہتا ہے  : میں نے مقداد بن اسود سے سنا کہ انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہوگا جہاں اسلام داخل نہ ہو اب یا رغبت کے ساتھ یا ذلت کے ساتھ دین کو قبول کریں گے  ۔۔۔

  اهل سنت کے مشہور مفسر سمعاني نے اس بارے میں کہا ہے  :

وقوله : * ( وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضي لهم ) أي : ليظهرن دينهم علي جميع الأديان .

تفسير السمعاني ، السمعاني ، ج 3 ، ص 544 - 545 .

اس «وليمكنن ... » کا معنی یہ ہے کہ تم لوگوں کا دین اور آئین تمام مذاھب پر فتح حاصل کرئے گا اور سب پر غالب آئے گا ۔

  ابن جوزي نے بھی کہا ہے  :

قوله تعالي : * ( وليمكنن لهم دينهم ) * وهو الإسلام ، وتمكينه : إظهاره علي كل دين .

زاد المسير ، ابن الجوزي ، ج 5 ، ص 372 .

اللہ کے اس جمے «وليمكنن ... » کا معنی یہ ہے کہ  دین یعنی اسلام ، تمکین یعنی تمام ادیان پر اس کا غالب آنا ۔

  قرطبي نے بھی اپنی تفسیر میں کہا ہے  :

( وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضي لهم ) وهو الاسلام ، كما قال تعالي : " ورضيت لكم الاسلام دينا " [ المائدة : 3 ] .

اس  « وليمكنن » والی آیت میں دین سے مراد ، اسلام ہے ۔  اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے  کہا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے ۔

اس روایت میں آگے نقل ہوا ہے :

وروي سليم بن عامر عن المقداد ابن الأسود قال : سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول : ( ما علي ظهر الأرض بيت حجر ولا مدر إلا أدخله الله كلمة الاسلام بعز عزيز أو ذل ذليل أما بعزهم فيجعلهم من أهلها وأما بذلهم فيدينون بها ) .

تفسير القرطبي ، القرطبي ، ج 12 ، ص 299 - 300 .

سليم بن عامر كلاعي نے  مقداد بن اسود کے واسطے سے  رسول خدا (صلي الله عليه وآله وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا  : کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہوگا جہاں اسلام داخل نہ ہو، سب یا رغبت کے ساتھ یا ذلت کے ساتھ دین کو قبول کریں گے  .

 

اب خلفاﺀ ثلاثہ کے دور میں حتی سارے مدینہ والے بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔خود اهل سنت والوں کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ عمر بن الخطاب کا قاتل  مجوسي تھا۔ اس نے مسجد میں داخل ہوکر خلیفہ کو قتل کیا۔

لہذا اس آیت کا خلفاﺀ ثلاثہ کی خلافت کی مشروعیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔

  

سادساً : 

اہل سنت کے بہت سے علماﺀ نے آیت کے اس حصے کی تفسیر میں کہا ہے :

وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا .

اس آیت میں آمن و سکون سے مراد یہ ہے کہ لوگ اللہ کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈریں گے ،یہاں تک کہ اسلامی سرزمین کے حاکم اسلحہ کے بغیر لوگوں کے درمیان چلا جاے گا اور انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا ،یہاں تک کہا ہے کہ آگر کوئی صنعا سے حضرموت تک سفر کرئے تو کوئی اسے نقصان نہیں پہنچائے گا.

قرطبي نے اپنی  تفسير میں لکھا ہے :

وجاء في معني تبديل خوفهم بالأمن أن رسول الله صلي الله عليه وسلم لما قال أصحابه : أما يأتي علينا يوم نأمن فيه ونضع السلاح ؟ فقال عليه السلام : ( لا تلبثون إلا قليلا حتي يجلس الرجل منكم في الملا العظيم محتبيا ليس عليه حديدة ) . وقال صلي الله عليه وسلم : ( والله ليتمن الله هذا الامر حتي يسير الراكب من صنعاء إلي حضرموت لا يخاف إلا الله والذئب علي غنمه ولكنكم تستعجلون ) .

تفسير قرطبي ، ج 12 ، ص299 .

خوف اور ڈر کا آمن و سکون میں تبدلیل ہونے کا معنی یوں نقل ہوا ہے  : پيامبر (صلي الله عليه وآله وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کیا ایسا دن آئے گا کہ ہم آرام اور سکون سے زندگی گزار سکے اور اسلحہ کو پھینگ دیں ؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا : بہت جلد ایسا ہوگا کہ تم میں سے ایک شخص لوگوں کے ہجوم میں اسلحہ کے بغیر حاضر ہوگا اور فرمایا: اللہ کی قسم یہ آرامش اور سکون حاصل ہوگا یہاں تک کہ صنعا سے حضرموت تک ایک سوار سفر کرئے گا اور کسی چیز سے نہیں ڈرے گا ،مگر یہ ہے کہ وہ خدا سے اور بھیڑ بکریوں کے بارے میں بھیڑیا سے ڈرے گا ۔۔۔ لیکن تم لوگ جلد بازی سے کام نہ نہ لو ۔

 

جس روایت سے قرطبی نے استدلال کیا ہے اس کو اہل سنت کے بہت سے علماﺀ نے نقل کیا ہے ،جیسے :

صحيح البخاري ، البخاري ، ج 8 ، ص 56 و مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 5 ، ص 111 و ج 6 ، ص 395 و عمدة القاري ، العيني ، ج 16 ، ص 144 و ج 16 ، ص 146 و ج 24 ، ص 99 و السنن الكبري ، النسائي ، ج 3 ، ص 450 و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 7 ، ص 157 و ج 15 ، ص 91 و المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 4 ، ص 63 و ...

 

جیساکہ سب کو معلوم ہے کہ ایسی آمن و آمان اور سکون خلفاﺀ ثلاثہ کے دور میں حاصل نہیں ہوا ہے۔

اور اس پر بہترین گواہ خود خلیفہ دوم کا اسلام کے مرکز میں اور مسجد نبوی میں قتل ہونا ہے [نہ صنعا اور حضرموت میں] ، اسی طرح جناب عثمان کا خود اصحاب کے ہاتھوں قتل ہونا بھی اس آیت سے مراد خلفاﺀ کی خلافت نہ ہونے پر گواہ ہے ۔

لہذا ایسا آمن و سکون صرف اور صرف حضرت مهدي عج الله تعالي فرجه الشريف کے ظہور کے وقت ہی حاصل ہوگا۔ ان کے علاوہ کوئی بھی اس روایت میں موجود آمن و سکون کو برقرار کرنے پر قادر نہیں ہوگا ۔

لہذا اس روایت کا خلفاﺀ ثلاثہ کی خلافت سے کوئی تعلق نہیں ۔

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم

تحقيقاتي ادارہ ، حضرت ولي عصر (عج)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی