2024 March 28
نواسہ رسول، کریم اہل بیت حضرت امام حسن مجتبی (ع) کی ولادت با سعادت
مندرجات: ٧٨٠ تاریخ اشاعت: ١١ June ٢٠١٧ - ١٤:٥٦ مشاہدات: 6032
یاداشتیں » پبلک
جدید
نواسہ رسول، کریم اہل بیت حضرت امام حسن مجتبی (ع) کی ولادت با سعادت

 

امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ 15 رمضان سن 3 ھ ق کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

الارشاد (شيخ مفيد)، ص 346

رمضان در تاريخ (لطف اللہ صافي گلپايگاني)، ص 107

منتہی الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 219

كشف الغمہ (علي بن عيسي اربلي)، ج2، ص 80

تاريخ الطبري، ج2، ص 213

البدايہ و النہايہ (ابن كثير)، ج8، ص 37

آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے نواسے اور پہلے امام اور چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند گرامی ہیں۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونے کی جگہ تھی۔ وہی گھرانہ کہ جس کی پاکی کے بارے میں قرآن نے گواہی دی ہے:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ لِيُذْھبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اھلَ الْبَيْتِ وَيُطَہرَكُمْ تَطْہيرًا۔

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

آيہ تطہير، سورہ احزاب، آيت 33

اس طرح خداوند نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین اور تمجید کی ہے۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام ، امیر المؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہرا (س) کے پہلے فرزند تھے۔ اس لیے آنحضرت کا تولد پیغمبر (ص) انکے اہل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا۔

پیغمبر (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں اقامت کہی اور مولود کا نام " حسن " رکھا۔

بحارالانوار (علامہ مجلسي)، ج43، ص 238

كشف الغمہ، ج2، ص 82

امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بہت سے القاب ہیں کہ ان میں : سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقی، زكی، مجتبی، وزير، اثير، امير، امين، زاہد و برّ مگر سب سے زیادہ مشہور لقب " مجتبی " ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اہل بیت کہتے ہیں ۔

آنحضرت کی کنیت ، ابو محمد ہے۔

منتہي الآمال، ج1، ص 219

رمضان در تاريخ، ص 111

كشف الغمہ، ج2، ص 86

پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور بچپن سے ہی نانا رسولخدا (ص) اور والد امیر المؤمنین علی (ع) اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہرا (س) کی ملکوتی آغوش میں پروان چڑہے اور ایک انسان کامل اور امام عادل جہان کو عطا کیا ۔

منتہي الآمال، ج1، ص 220

كشف الغمہ، ج2، ص 87

البدايہ و النہايہ، ج8، ص 37

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک حدیث کے ذریعے اپنے نور چشم حسن مجتبی (ع) کی فضیلت یوں بیان فرمائی ہے کہ:

حسن میرا فرزند ہے ، وہ میرا نور چشم ہے ، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے، وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے ۔ اس کا حکم میرا حکم ہے اسکی بات میری بات ہے جس نے اسکی پیروی کی اس نے میری پیروی کی ہے جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی ہے ۔ میں جب اسکی طرف دیکھتا ہوں تو میرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے ، اس یاد میں کھو جاتا ہوں، جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی ذمہ داری نبھاتا رہے گا جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زہر دے کر شہید کیا جائے گا۔ اس وقت آسمان کے ملائکہ اس پر عزاداری کریں گے ۔اسی طرح زمین کی ہر چیز اور آسمان کے پرندے ، دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزادری کریں گے۔

بحارالانوار، ج44، ص 148

امام حسن (ع) كی صلح اور امام حسین (ع)كے جہاد كا فلسفہ:

اہل سنت كہتے ہیں: اس امر میں كوئی حرج نہیں ہے کہ لوگ ان كے امام اور پیشوا سے زیادہ دانش مند اور عقل مند ہوں ۔

اور وہ یہ عقیدہ بھی ركھتے ہیں كہ:

ان كا امام ممكن ہے گناہ كا مرتكب ہو جائے اور كسی اشتباہ سے دوچار ہو جائے ۔

اسی بنا پر اہل تسنن كی كتابوں میں ہے کہ ابو بكر نے كہا:

ایھا الناس قد ولیت امركم و لست بخیركم .... فان احسنت فاعینونی وان زغت فقومونی،

میں نے تمہاری حكومت كے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، حالانكہ میں تم میں سے بہترین نہیں ہوں ۔ اگر تم لوگ مجھے راہ حق پر چلتا ہوا دیكھو تو میری مدد كرو اگر میں نے راہ باطل پر قدم بڑھایا تو میری رہنمائی كرو۔

طبقات ابن سعد ج 3 ص 129

 تاریخ طبری ج 4 ص 1829

سیرت ابن ہشام مطبوعہ مصر  ج 3 ،4 ص 660

عمر كے بارے میں بھی یہ نقل كیا گیا ہے كہ عورتوں كے مہر كے بارے میں اس نے قرآن كے خلاف رائے دی ۔ ایک مسلمان خاتون نے اسے اسکی غلطی پر آگاہ كیا اور عمر نے اعتراف كیا کہ:

كل احدٍ اعلم من عمر و كل الناس افقہ من عمر،

تمام لوگ عمر سے زیادہ دانا اور فقیہ ہیں ۔

تفسیر كشاف ج1 ص 491 ۔ مطبوعہ اسماعیلیان

در المنثور ج2 ص 133

تفسیر امام فخر رازی ج10 ص 13

لیكن اہل تشیع مسلمہ عقلی اور نقلی دلائل كی بنا پر یہ عقیدہ ركھتے ہیں كہ:

امام، رسالت كے ہدف كو جاری ركھنے اور اس كی خاطر جدوجہد كرنے كے لیے خدا كی طرف سے اور پیغمبر كے وسیلے سے مقرر كیا گیا ہے ۔ اس لیے اسے ہر طرح كے گناہ، خطا اور غلطی سے پاک اور تمام انسانوں سے زیادہ عقلمند ہونا چاہیے تا كہ وہ امت اسلامی كی حقیقی فلاح و سعادت كی جانب رہنمائی كر سكے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے ایک سچے صحابی عمار یاسر سے فرمایا:

اگر تمام لوگ ایک راہ اختیار كریں اور علی (ع) كسی دوسری راہ پر چلیں تو تم اس راہ پر چلو جس پر علی (ع) چل رہے ہوں اور دوسرے تمام لوگوں سے الگ ہو جاؤ۔

اے عمار ! علی (ع) تمہیں ہرگز ہدایت كے راستے سے باہر نہیں لے جائے گا اور ضلالت و گمراہی كی راہ پر نہیں ڈالے گا۔

اے عمار ! علی (ع) كی اطاعت اور پیروی، میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدائے بزرگ و برتر كی اطاعت ہے ۔

غایة المرام بحرانی: ص 208 ۔ نقل از كتاب فرائد السمطین ۔

نیز رسول اكرم نے اپنے بعد دو قیمتی چیزوں (ثقل اكبر اور ثقل اصغر) كو مضبوطی سے پكڑے رہنے كا حكم دیا اور وضاحت بھی فرما دی كہ ثقل اكبر سے مراد " قرآن مجید " اور ثقل اصغر سے مراد آپ كی " عترت اور اہلبیت: ہیں اور فرمایا:

لا تسابقوھم فتھلكوا ولا تقصروا عنھم فتھلكوا ولا تعلموھم فھم اعلم منكم ۔

ان سے آگے اور پیچھے مت ہونا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور انھیں كوئی چیز نہ سكھاؤ كہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں ۔

غایة المرام بحرانی ص 214

آئمہ (ع) كے بارے میں ہمارا عقیدہ اس طرح كا ہے كہ:

ان كا علم، علم الہی ہے نہ كہ بشری اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں كو اس صحیفے اور نوشتے میں دیكھتے ہیں جو اللہ تعالی كی طرف سے پیغمبر كے وسیلے سے ان تک پہنچا ہے ۔ اس كی حركت، ان كا سكون، ان كی لڑائی اور ان كا سكوت، سب خدا كے حكم كے تحت ہے اور وہ كوئی كام خدا كی مرضی اور پسند كے خلاف نہیں كرتے ۔

اصول كافی ج 1 ص 279

جیسا كہ پیغمبر اکرم نے امام حسن اور امام حسین علیھما السلام كے بارے میں فرمایا:

الحسن والحسین امامان قاما او قعدا،

حسن (ع) اور حسین (ع) دونوں امام ہیں خواہ وہ قیام كریں یا بیٹھے رہیں ۔

علل الشرائع صدوق مطبوعہ قم ص 200

بحار الانوار ج 44 ص 2

اس ارشاد میں امام حسن علیہ السلام كی صلح اور امام حسین علیہ السلام كے قیام كی جانب اشارہ كیا گیا ہے كہ دونوں ہی چیزیں اسلام اور مسلمان كے مفاد میں تھیں اور وہ دونوں محترم شخصیتیں اپنا حقیقی اور خدا كی طرف سے مقرر كردہ فریضہ انجام دیتی رہی تھیں اور كوئی شخص ان كی صلح اور ان كے قیام پر اعتراض نہیں كر سكتا ۔

اہل تشیع اس ثابت شدہ نظریے اور اس مستحكم عقیدے كی بنا پر اپنے آئمہ كی بے چوں و چرا پیروی كرتے ہیں اور ان كی مطلق اطاعت كو واجب سمجھتے ہیں اور ان بزرگوں كے فرمان كو خواہ وہ قیام كے لیے ہو یا قعود كے لیے، خواہ وہ جہاد كے لیے ہو یا سكوت كے لیے، اسے بجا لانے كو اپنا فرض جانتے ہیں جیسے كہ اگر وہ كسی ایسے كام كا حكم دیں جس كی مصلحت اور جس كا فائدہ ان پر واضح نہ ہو تب بھی اس حكم كے بجا لانے كو اپنا فریضہ سمجھ كر بجا لاتے ہیں كیونكہ آئمہ (ع) معصوم ہیں اور جو كچھ وہ كہتے ہیں خدا كے فرمان كے مطابق اور اسلام اور مسلمانوں كی مصلحت كو پیش نظر ركھ كر كہتے ہیں ۔

اس واقعہ پر توجہ فرمائیے:

سہل خراسانی نے امام صادق علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا:

آخر آپ (ع) ان لوگوں كے خلاف كیوں اٹھ كھڑے نہیں ہوتے کہ آپ (ع) كے لاكھوں طرفدار اپنی تلواروں سے آپ كی مدد كرنے كے لیے آمادہ و تیار ہیں ؟

امام صادق علیہ السلام نے تنور گرم كرنے كا حكم دیا اور پھر فرمایا:

" اے خراسانی ! مجھے آگ كا عذاب نہ دیجیے اور میرا تصور معاف كردیجیے ۔"

آپ (ع) نے فرمایا:

" میں نے تجھے معاف كیا ۔"

اس دواران ہارون مكی ہاتھ میں اپنے جوتے لیے حاضر ہوئے یہ امام (ع) كے سچے پیروکاروں میں سے تھے ۔

امام (ع) انہیں حكم دیا:

" اپنے جوتے پھینک دو اور تنور میں بیٹھ جاؤ ۔"

ہارون نے اپنے زبان سے ایک حرف نكالے بغیر اور كوئی سوال كیے بغیر حكم كی تعمیل كی اور تنور میں داخل ہو گئے ۔

امام علیہ السلام نے اب سہل سے بات شروع كی اور خراسان كے حالات كو اس طرح بیان كیا جیسے وہ برسوں خراسان میں رہے ہوں ۔ پھر سہل سے كہا:

" اٹھو اور تنور میں دیكھو ! "

خراسانی اٹھا اور اس نے ہارون مكی كو دیكھا كہ وہ كسی تكلیف كے بغیر تنور میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔

ہارون تنور سے باہر آئے، امام علیہ السلام نے خراسانی سے پوچھا:

" تمہیں ہارون مكی جیسے كتنے افراد خراسان میں مل سكتے ہیں كہ جو بے چون و چرا فرمانبرداری كریں ؟

سہل نے كہا:

" خدا كی قسم ایک آدمی بھی ایسا نہیں مل سكتا ۔"

اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا:

ہمیں زیادہ بہتر معلوم ہے كہ كس وقت قیام كرنا چاہیے ۔ اس بات كی ضرورت نہیں ہے كہ دوسرے ہماری رہنمائی كریں۔

7مناقب ابن شہر آشوب مطبوعہ نجف ج 3 ص 362،

بحارالانوار ج 47 ص 123

ہارون مكی نے اس حقیقت كو پا لیا تھا كہ امام (ع) ہر طرح كی خطا اور غلطی سے دور ہیں اور انھوں نے جو كچھ حكم دیا ہے، اسے بجا لانا اس كا فرض ہے حتی كہ كوئی سوال كرنے كی بھی ضرورت نہیں۔ اسی لیے امام (ع) كے حكم كے بارے میں اس نے كسی تردد كا اظہار نہیں كیا اور اسے بے چون و چرا تسلیم كر لیا۔ بلاشبہ شیعوں كا طرز فكر اپنے پاک اور معصوم آئمہ (ع) كے بارے میں اسی طرح كا ہے اور اسی عقیدے اور اعتماد پر اگر ہمیں ان كے بعض كاموں كی حكمت معلوم نہ ہو مثلاً: امام حسن علیہ السلام كی صلح كا سبب، یا امام حسین علیہ السلام كے قیام كی حكمت،

تب بھی ہم اعتراض و تنقید كی زبان نہیں كھولیں گے اور یہ یقین ركھیں گے كہ بہترین اور مناسب ترین وہی كام ہے جو انھوں نے انجام دیا ہے۔

اب ہم امام حسن علیہ السلام كی صلح اور امام حسین كے قیام كے محركات معلوم كرنے كے لیے علم و تحقیق كے متعبر سرچشموں كی طرف رجوع كرتے ہیں۔

امام حسن (ع) كی صلح كا فلسفہ:

اگر اسلامی تواریخ كا بغور مطالعہ كریں تو ہمیں معلوم ہو گا كہ امام حسن علیہ السلام نے فی الواقع صلح كے لیے اقدام نہیں كیا تھا بلكہ صلح ان پر مسلط كی گئی تھی ۔ یعنی اسلامی ممالک كے داخلی اور خارجی حالات اس طرح كے تھے كہ صلح كے مسئلے كو ایک انتہائی لازمی و ضروری اور ناقابل اجتناب مسئلے كے طور پر امام حسن علیہ السلام پر مسلط كیا گیا ۔

اور اگر یہ حالات امام حسن علیہ السلام كے علاوہ كسی اور شخص كو بھی درپیش ہو تو اس كے لیے بھی صلح كے سوا كوئی چارہ نہ ہوتا۔

اب ہم اس وقت ممالک اسلامی كو درپیش داخلی اور خارجی حالات كا جائزہ لیتے ہیں:

1- سیاست خارجی كے نقطہ نظر سے:

ہمیں یہ معلوم ہے كہ روم كی سلطنت كو اسلام كے ہاتھوں سخت ضربیں لگی تھیں اسی لیے وہ كسی مناسب موقع كی تلاش میں گھات لگائے بیٹھی تھی تا كہ اسلام كی مقتدر حكومت پر ایک كاری ضرب لگا سكے۔

اسلامی تاریخوں اور ان میں سے ایک " تاریخ یعقوبی " سے معلوم ہوتا ہے كہ جب امام حسن علیہ السلام كی افواج اور معاویہ كے فوجیوں كی ایک دوسرے كے خلاف صف بندی كی اطلاع روم پہنچی تو روم كے حكمرانوں نے سونچا كہ یہ ان كے ہدف كے حصول كا مناسب ترین وقت ہے، اور اسی لیے انھوں نے اسلامی ممالک كے خلاف لشكر كشی كے اقدامات شروع كر دیئے ۔

اس موقع پر اگر امام حسن علیہ السلام معاویہ كے ساتھ جنگ كو جاری ركھتے تو دشمنان اسلام، اسلام كی بنیادوں پر اچانک ایک ایسی ضرب لگاتے جو ناقابل تلافی نقصان كی حامل ہوتی ۔

كیا ایسے حالات میں امام حسن علیہ السلام جیسا شخص جس نے آغوش اسلام میں پرورش پائی تھی اور اسلام كو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ركھتا تھا، اس كے لیے بجز اس كے اور كوئی چارہ رہ گیا تھا كہ ایک زیادہ بڑے مقصد (بقائے اسلام) كی خاطر روحانی رنج اور تلخی كے ساتھ صلح پر آمادہ ہو جائے ؟

ہمارے اس بیان كی حمایت یعقوبی كے اس فقرے سے بھی ہوتی ہے کہ جو اس نے اسلامی ممالک كی خارجی سیاست كی نہایت حساس صورت حال كے بارے میں تحریر كیا ہے ۔

یعقوبی لكھتا ہے کہ:

معاویہ جب صلح كے بعد شام واپس ہوا تو اس نے سنا كہ روم كی افواج ایک بڑی جمیعت كے ساتھ شام كی جانب آ رہی ہیں ۔ معاویہ نے ابتداء ایک قرار داد كی بنیاد پر صلح كر لی اور پھر جب كافی قوت فراہم كر لی تو رومیوں سے جنگ كی اور انھیں شكست دے دی۔ چنانچہ رومی اس بات پر تیار ہو گئے كہ دولت اسلامی جو كچھ انھیں دیتی تھی، اس سے زیادہ وہ اسے دیں لیكن معاویہ نے اسے قبول نہیں كیا۔

تاریخ یعقوبی ج2 ص 206 ۔ مطبوعہ نجف ۔

یعقوبی كے اس بیان سے بخوبی واضح ہوتا ہے كہ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ كے درمیان صف آرائی كے وقت رومی اسلام پر جو حملے كے لیے تیار ہو گئے تھے لیكن امام حسن علیہ السلام كی اس تدبیر نے ان كے ناپاک منصوبے كو خاک میں ملا دیا۔

2- داخلی سیاست كے نقطہ نظر سے:

اگر ہم امام حسن علیہ السلام كی سیرت كا مطالعہ كریں تو ہمیں معلوم ہو گا كہ آپ (ع) اپنے والد امیر المؤمنین (ع) كی زندگی میں صف اول میں رہ كر دشمن سے جنگ كرتے تھے، چنانچہ جنگ جمل میں پرچم حاصل كرنے كے لیے آپ دوسروں پر سبقت لے گئے، اور آپ ہر اعتبار سے جنگ كے لیے تیار تھے ۔

امامة و السیاسة ج 1 ص 77

آپ (ع) نے جنگ صفین میں بھی شركت كی اور لشكر كے قلب میں موجود رہے اور حضرت علی (ع) كی فوج كی كامل فتح كے لیے مسلسل كوشاں رہے ۔

الامامة والسیاة ج 1 ص 108

ان (ع) كے دل میں كبھی خوف اور ڈر نہیں رہا اور ہمیشہ حق و حقیقت كے طرفدار رہے ۔ آپ (ع) كسی سے ہراساں نہیں ہوتے تھے۔ حتی كہ صلح كے مسلط كیے جانے كے بعد بھی علانیہ معاویہ پر تنقید كرتے تھے اور اس كی كمزوریاں اور غلطیاں لوگوں پر واضح کیا كرتے تھے ۔

جب معاویہ صلح كے بعد كوفہ آیا اور امام حسن علیہ السلام سے منبر پر آنے كی خواہش ظاہر كی، اس سے غالباً اس كا مقصد امام حسن (ع) كو كمزور ظاہر كرنا تھا ۔

امام حسن علیہ السلام منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے خاندان كی خدمات كا ذكر كیا اور معاویہ كی حكومت كو باطل اور زوال پذیر قرار دیا اور جو لوگ حكومت بنی امیہ كے آگے جھک گئے تھے اور ان كی ماتحتی قبول كر لی تھی انھیں ڈرایا اور متنبہ كیا ۔ اس واقعہ سے چونكہ بالكل الٹا نتیجہ برآمد ہوا اس لیے معاویہ سخت پشیمان ہوا ۔

طبری ج 7 ص 6

اب ہم اس بات كا جائزہ لیتے ہیں كہ امام حسن علیہ السلام اس قدر عظیم ہمت اور حوصلہ ركھنے كے باوجود كیوں معاویہ كے ساتھ صلح پر آمادہ ہو گئے تھے ؟

امام حسن علیہ السلام نے یہ بات جان لی تھی كہ كوفہ كے لوگ اپنے كردار میں صادق اور سچے نہیں ہیں ۔ اگرچہ كہ انھوں نے امام (ع) كے ہاتھ پر یہ بیعت كی تھی كہ اگر انھوں نے جنگ كی تو وہ ان كا جنگ میں ساتھ دیں گے، لیكن باطن میں ان كا دل معاویہ كے مال و جاہ میں اٹكا ہوا تھا اور وہ اسی كی طرح مائل تھے۔

 بحار الانوار ج44 ۔ ص 54  

 ارشاد مفید ص 169 ۔

امام حسن علیہ السلام كو كوفہ كے لوگوں كے ان خطوط كا بھی علم تھا جو انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ كو لكھے تھے اور جس میں كہا تھا كہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تم چاہو تو امام حسن (ع) كو تمہارے حوالے كر دیں۔

وہ یہ بھی جانتے تھے كہ آپ كی فوج كا سردار عبید اللہ ابن عباس دس لاكھ درہم لے كر راتوں رات آٹھ ہزار سپاہیوں كے ساتھ بھاگ كر معاویہ كے لشكر سے جا ملا ہے ۔

وہ دیكھ رہے تھے كہ كس طرح معاویہ كی جانب سے یہ جھوٹا پراپوگنڈا كیا جا رہا تھا كہ امام حسن علیہ السلام نے صلح كر لی ہے اس طرح آپ كے فریب خوردہ سپاہیوں كو پراگندہ كیا جا رہا تھا ۔

اور انھیں یہ بات بھی معلوم تھی كہ سپاہیوں كی اس قدر كم تعداد كے ساتھ معاویہ سے جنگ نہیں كی جا سكتی اور یہ كہ اسلام اور مسلمانوں كے تحفظ كی خاطر صلح قبول كرنے كے سوا كوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا۔

حقیقت كو واضح كرنے كے لیے ہم اس بارے میں ایک تاریخی حوالہ بھی نقل كرتے ہیں:

یعقوبی لكھتا ہے کہ:

حضرت علی (ع) كی شہادت كے بعد لوگوں نے امام حسن (ع) كے ہاتھ پر بیعت كی ۔ امام حسن علیہ السلام نے عبید اللہ بن عباس كی سركردگی میں بارہ ہزار كی فوج معاویہ كے مقابلے كے لیے روزانہ كی اور عبید اللہ كو حكم دیا كہ وہ اپنے كاموں میں قیس بن سعد كی رائے پر عمل كیا كرے ۔ عبید اللہ لشكر كو لے كر روانہ ہوا ۔ ادھر معاویہ كو حضرت علی (ع) كی شہادت كا علم ہو چكا تھا۔ وہ 18 دن كے بعد موصل پہنچا۔ آخر كار اس كے سپاہی اور امام حسن (ع) كا لشكر ایک دوسرے كے مقابلے آ گئے ۔

معاویہ نے دس لاكھ درہم قیس كے لیے روانہ كیے تا كہ وہ اس سے آ ملے اور امام (ع) سے الگ ہو جائے قیس چونكہ ایک دلیر اور دیندار آدمی تھا، اس لیے اس نے اس رقم كے قبول كرنے سے انكار كر دیا ۔ پھر معاویہ نے وہی رقم عبید اللہ ابن عباس كے پاس روانہ كی ۔ عبید اللہ نے اپنے دین و ایمان كو فروخت كر دیا اور جنگ سے دست بردار ہو گیا اور اپنے 8 ہزار سپاہیوں كو لے كر معاویہ سے جا ملا، لیكن قیس نے مزاحمت كی اور جنگ سے منہ نہ موڑا۔ آخر كار معاویہ نے امام حسن علیہ السلام كے لشكر میں اپنے جاسوس بھیجے تا كہ وہ وہاں پراپوگنڈا كریں اور امام حسن علیہ السلام كی فوج میں یہ كہہ كر انتشار برپا كریں كہ قیس نے معاویہ سے ساز باز كر لی ہے اور امام (ع) اور معاویہ كے درمیان صلح ہو گئی ہے ۔

اس طرح وہ امام حسن علیہ السلام كی فوج كو پراگندہ كرتے رہے ۔ معاملہ یہاں تک پہنچا كہ معاویہ نے چند مہم شخصیتوں كو کہ جن كی باتوں پر لوگ یقین كرتے تھے، امام حسن علیہ السلام سے ملاقات كے لیے روانہ كیا كہ وہ جب امام (ع) سے مالاقات كر كے باہر آئیں تو یہ بات لوگوں میں پھیلا دیں كہ امام (ع) نے معاویہ كے ساتھ صلح كر لی ہے ۔ اس منصوبے كے تحت، مغیرہ بن شعبہ، عبد اللہ بن عامر اور عبد الرحمن ام الحكم، مدائن پہنچے اور امام (ع) كے خیمے میں ان سے ملاقات كی اور جب باہر آئے تو بآواز بلند اعلان كیا كہ اللہ تعالی نے امام حسن علیہ السلام كے ذریعہ لوگوں كے خون كو محفوظ كر دیا اور اب فتنہ و فساد كا طوفان تھم گیا، كیونكہ امام (ع) نے معاویہ كے ساتھ صلح كر لی ہے ۔

امام حسن (ع) كے سپاہیوں نے ان باتوں كی تحقیق كے بغیر غضبناک ہو كر امام حسن (ع) كے خیمے پر حملہ كر دیا ، اور جو كچھ اس میں تھا اسے برباد كر دیا ۔ امام (ع) گھوڑے پر سوار ہو كر ساباط كی طرف روانہ ہو گئے ۔ جراح بن سنان پہلے سے گھات میں بیٹھا تھا، اس نے اچانک حملہ كر دیا اور خنجر سے آپ (ع) كی ران كو رخمی كر دیا ۔ اس زخم كی وجہ سے آپ بے حد كمزور ہو گئے، اور بیمار پڑ گئے اس كے بعد آپ كو مدائن لے جایا گیا ۔ اس طرح لوگ آپ (ع) كے اطراف سے پراگندہ ہو گئے ۔

معاویہ عراق آیا اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔ امام (ع) كی بیماری نے بھی شدت اختیار كی ایک ایسے موقع پر جب كہ امام (ع) جنگ كی طاقت نہیں ركھتے تھے اور ان كے ساتھی پراگندہ ہو گئے تھے ۔ صلح ان پر مسلط كر دی گئی چنانچہ وہ منبر پر آئے ۔ اللہ تعالی كی حمد بیان فرمائی اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام كے بعد فرمایا:

لوگو ! اللہ تعالی نے ہمارے سب سے پہلے فرد كے ذریعہ تمہیں ہدایت كی اور ایک دوسرے فرد كے ذریعہ تمہارے خون كو تحفظ عطا كیا ۔ میں نے معاویہ كے ساتھ صلح كر لی ہے كہ حكومت ظاہری اس ہی كی ملكیت ہو گی ۔

یعقوبی ج 2 ۔ ص 204 مطبوعہ نجف

طبری نے بھی تصریح كی ہے كہ امام حسن علیہ السلام نے اس وقت كی صلح كی جب ان كا لشكر پراگندہ ہو گیا تھا اور وہ تنہا رہ گئے تھے ۔

تاریخ طبری ج 7 ص 2

مرحوم شیخ مفید نے ارشاد میں فرمایا ہے:

امام حسن علیہ السلام كا لشكر مختلف قسم كے سپاہیوں سے تشكیل پایا تھا ۔

آپ (ع) كے پیرو، خصوصاً آپ (ع) كے والد كے پیرو ۔

خوارج جو امام حسن علیہ السلام كی مدد كرنا نہیں چاہتے تھے ۔

دولت كے پجاری جو مال و دولت حاصل كرنے كی خواہش ركھتے تھے۔

متعصب قسم كے لوگ جو صرف اپنے قبیلے كے سردار كی پیروی كرتے تھے ۔

اسی بنا پر اس لشكر كے سپاہیوں نے ثابت قدمی نہیں دكھائی اور بہت جلد امام (ع) كی پیروی سے منہ پھیر لیا ۔ حتی كہ بعض قبائل كے سرداروں نے معاویہ كو لكھا:

ہم تمہارے فرمانبردار ہیں اور قول دیتے ہیں كہ حسن بن علی (ع) كو تمہارے حوالے كر دیں گے ۔

معاویہ نے وہ خطوط امام حسن علیہ السلام كے پاس بھیج دیئے قیس ابن سعد نے بھی جسے امام (ع) نے عبید اللہ ابن عباس كا نائب مقرر فرمایا تھا امام (ع) كو اطلاع دی كہ معاویہ نے عبید اللہ كو اپنی طرف مائل كر لیا ہے اور اسے دس لاكھ درہم كی پیش كش كی ہے اور كہا ہے كہ آدھی رقم نقد دی جائے گی اور آدھی رقم اس وقت جب وہ امام (ع) كو چھوڑ كر كوفہ پہنچ جائے گا ۔

چنانچہ عبید اللہ ایک رات بھاگ كر معاویہ كے لشكر میں پہنچ گیا اور اس سے جا ملا ۔ اس طرح ان لوگوں كی نیتوں كا فساد اور ناپاكی بے نقاب ہو گئی جو امام حسن علیہ السلام كے اطراف جمع ہو گئے تھے ۔

امام (ع) نے دیكھا كہ بس مخلص شیعوں كے ایک گروہ كے سوا كوئی بھی ان كے ساتھ نہیں ہے اور یہ بچے كھچے ساتھی بھی جنگ كی سكت نہیں ركھتے لہذا امام صلح پر مجبور ہو گئے، اس کے باوجود کہ آپ یہ بخوبی جانتے تھے كہ معاویہ كے نزدیک صلح ایک حیلہ ہے ۔

كتاب ارشاد ص 171 ۔ 174

اس سے بخوبی واضح ہو گیا كہ اس زمانے میں دولت اسلامیہ كے داخلی حالات كچھ اس طرح كے تھے كہ امام (ع) كے لیے معاویہ كے ساتھ صلح كرنا ناگریز ہو گیا تھا اور اسلام اور مسلمانوں كی حفاظت كے لیے یہ كام ضروری ہو گیا تھا ۔ اس كے سوا كوئی راہ باقی نہیں رہ گئی تھی كہ معاویہ سے صلح كی جائے ۔

اسی بنا پر شیعہ كہتے ہیں كہ امام حسن علیہ السلام كی صلح ناگزیر اور ان پر مسلط كردہ تھی یہ اختیاری صلح نہیں تھی ۔

خود امام حسن علیہ السلام نے اپنے شیعوں كے سامنے صلح كے محركات كی اس طرح سے توضیح فرمائی تھی کہ:

خدا كی قسم ! اگر لوگ میرے ہاتھ پر بیعت كرتے اور میری مدد كرتے تو آسمان سے بارش برستی اور زمین ان كے لیے بركتیں اگلتی اور معاویہ خلافت كے معاملے میں طمع كی راہ اختیار نہ كرتا ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے مكہ اور اپنی قوم كو چھوڑ كر غار میں پناہ لی اور اگر لوگ آپ كی مدد كرتے تو آپ كو غار میں پناہ لینے كی ضرورت نہ پڑتی اور آپ مكہ سے ہجرت نہ فرماتے ۔ مجھے اور میرے باپ كو بھی امت نے تنہا چھوڑ دیا اور دوسروں كے پیچھے چلنے لگے ۔ پھر صلح كے سوا ہماری كوئی ذمہ داری نہ رہی ۔

بحار الانوار ج 44 ص 23

خدا كی قسم ! اگر معاویہ كے ساتھ جنگ كرتا تو لوگ مجھے پكڑ كر اس كے حوالے كر دیتے ۔

بحار الانوار ج 44 ص 21

تم نہیں جانتے كہ میں نے كیا كام كیا ہے، خدا كی قسم میں نے وہی كام كیا ہے کہ جو شیعہ كے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے، جس پر سورج طلوع ہوتا ہے ۔ میں نے مسلمانوں كے مفاد میں اور ان كے خون كے تحفظ كے لیے یہ كام انجام دیا ہے ۔

بحار الانوار، ج 44 ص 19 و ص 56 ۔

3- معاویہ كا كردار واضح ہو گیا:

معاویہ، عمر بن خطاب كے زمانے سے شام كا گورنر تھا، عمر چونكہ اس كا بہت احترام كرتا تھا، اس بنا پر اس نے شام میں بڑا مقام پیدا كر لیا تھا ۔ اس حد تک كہ شام كے لوگوں كی نگاہوں میں اس كا مرتبہ مقداد، عمار، ابوذر اور ایسے دوسرے اصحاب سے بھی بڑھ گیا تھا ۔ حیلہ و تدبیر كی بنا پر اس كا حقیقی كردار لوگوں كی نگاہوں سے مخفی تھا اور اس كی حقیقی شخصیت كو لوگ نہیں پہچانتے تھے ۔

جو شخص بھی اس كے خلاف اٹھ كھڑا ہوتا تھا تو وہ لوگوں كی نگاہوں میں اسے ملزم ٹھہرا دیا كرتا اور خود بری ہو جاتا ۔ وہ اپنے تمام كاموں كو اسلام كا لباس پہنا دیتا اور آخر اتنا جری ہو گیا كہ حضرت علی (ع) كے مقابل اٹھ كھڑا ہوا اور اپنے اس اقدام كو خون عثمان كا بدلہ لینے كا رنگ دے دیا ۔

ظاہر ہے ان حالات میں اگر امام حسن علیہ السلام، معاویہ سے جنگ كرتے تو قتل كر دیئے جاتے اور آپ (ع) كا خون ضائع ہو جاتا اور پھر معاویہ اسے اپنی ایک سیاسی اور جنگی تدبیر قرار دیتا اور اس طرح اس كے اصل عزائم اور اس كا حقیقی كردار لوگوں كی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ۔

لیكن صلح كے سبب مسلمانوں كا خون محفوظ ہو گیا اسلام پر بھی كوئی آنچ نہ آئی اور معاویہ كے مکروہ عزائم بے نقاب ہو گئے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے كہ امام حسن (ع) نے صلح نامہ كے مضمون كو اس طرح ترتیب دیا كہ یہ چیز مستقبل میں بھی معاویہ كے اصل عزائم ظاہر كرنے میں مؤثر ثابت ہو سكے۔

صلح نامے كے مضمون كا ایک حصہ:

معاویہ اس بات كا پابند ہے كہ وہ كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل كرے گا ۔ وہ اپنا كوئی جانشین مقرر نہیں كرے گا ۔ امیرالمؤمنین علی (ع) كے پیروؤں اور ساتھیوں كو امان دے گا اور حضرت علی (ع) كو برابر بھلا بھی نہیں كہے گا ۔۔۔۔

بحار الانوار ج 44 ص 64

لیكن معاویہ نے ان باتوں میں سے كسی ایک بات پر بھی عمل نہیں كیا اور صلح كے طے پانے جانے كے بعد وہ نخلیہ كوفے كے قریب ایک مقام پر آیا اور اپنے خطاب میں كہا:

خدا كی قسم ! میں نے تمہارے ساتھ اس لیے جنگ نہیں كی كہ تم نماز ادا كرو، روزے ركھو، اور حج كرو اور زكوة دو، كیونكہ یہ كام تو تم پہلے ہی سے انجام دیتے ہو ۔ میں نےتو تم لوگوں سے اس لیے جنگ كی ہے كہ تم پر حكومت كروں اور اب میں نے ہدف حاصل كر لیا ہے ۔ میں اعلان كرتا ہوں كہ صلح نامے میں جن شرائط كو میں نے قبول كیا ہے ان سب كو میں اپنے پیر كے نیچے ركھتا ہوں اور میں انھیں ہرگز پورا نہیں كروں گا۔

بحار ج 44 ص 49

اس طرح معاویہ كے اصل عزائم بے نقاب ہو گئے اور سب كو معلوم ہو گیا كہ حكومت كے سوا اس كا كوئی اور مقصد نہیں تھا ۔ اسے اسلام اور مسلمانوں كی فكر نہیں تھی ۔ جب اس نے اپنی مرضی كے مطابق سلطنت حاصل كر لی تو اس صلح نامے كی تمام شرائط كو بھولا دیا جو اس نے امام حسن علیہ السلام كے ساتھ طے كیا تھا۔

امام حسین (ع) كے جہاد كا فلسفہ:

امام حسن علیہ السلام اور حكومت معاویہ كے زمانے كے حالات اور امام حسین علیہ السلام اور حكومت یزید كے زمانے كے حالات میں بہت بڑا فرق ہے كیونكہ یزید اسلامی قوانین كا پابند نہیں تھا ۔ حتی كہ ظاہر داری كے لیے بھی ان قوانین كی پابندی نہیں كرتا تھا اور تمام دینی شعائر كا علانیہ مذاق اڑاتا تھا اور اس حكومت كا جاری رہنا یقینی طور پر اسلام اور مسلمانوں كے لیے نقصان دہ تھا ۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنے بڑے بھائی امام حسن علیہ السلام كی شہادت كے بعد معاویہ كی حكومت كے ختم ہونے تک اس صلح كی پابندی كی جو امام حسن (ع) نے معاویہ سے كی تھی ۔

اور معاویہ كی ہلاکت كے بعد، یزید كے ہاتھ پر بیعت سے انكار كرتے ہوئے 60 ہجری كے اواخر میں آپ اپنے خاندان كے ساتھ مكہ چلے گئے اور وہاں حج كے باقاعدہ مراسم كی تكمیل سے پہلے ہی عراق اور كوفہ كی طرف روانہ ہو گئے اور 2 محرم سنہ ھ 61 كو میدان كربلا میں خیمہ زن ہوئے ۔

یہاں ابن زیاد كے ایک بڑے لشكر سے آپ كا مقابلہ ہوا ۔ 10 محرم كو ایک سخت جنگ كے بعد اپنے بھائیوں، بیٹوں اور ساتھیوں كے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا اور اپنے خون سے كربلا كے عظیم كارنامے كو رقم فرمایا ۔

تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے ہی سے ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے كہ امام علیہ السلام كو اپنے سفر كا انجام معلوم تھا اور وہ اچھی طرح جانتے تھے كہ مكہ اور عراق كی جانب ان كا سفر بالآخر ان كے قتل اور شہادت پر ختم ہو گا اس سلسلے میں ہمارے چند دلائل یہ ہیں:

1) ابن زیاد نے امام (ع) كے سامنے یہ تجویز ركھی كہ آپ (ع) مكہ ہی میں رہیں میں لوگوں كو آپ (ع) كی مدد و رفاقت كے لیے جمع كروں گا ۔

امام (ع) نے فرمایا:

خدا كی قسم ! میں مکہ میں شہید ہونے سے زیادہ مكہ سے باہر شہید ہونا پسند كرتا ہوں ۔

دور جاہلیت میں بھی اور زمانے اسلام میں بھی حریم خانہ خدا میں جنگ اور خونریزی ممنوع تھی اور امام (ع) كی بھی یہی كوشش تھی كہ اگر وہ قتل ہوں تو مكہ میں قتل نہ ہوں اور خانہ خدا كی حرمت پامال نہ ہو۔

خدا كی قسم اگر وحشی اور خوفناک درندوں كی پناہ گاہ میں بھی پناہ لوں تو یہ ظالم مجھے باہر نكال لائیں گے اور اپنا مقصد كہ جو میرا قتل ہے، حاصل كر كے رہیں گے۔

كامل ابن اثیر ج 4 ص 38 مطبوعہ بیروت

2) چوتھے امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

مكہ سے عراق تک كے راستے میں كوئی منزل یا مقام ایسا نہیں تھا جہاں قیام كرتے اور كوچ كرتے وقت میرے بابا نے یحیی ابن زكریا علیہ السلام اور ان كے قتل ہونے كو یاد نہ كیا ہو ۔ ایک دن انھوں نے فرمایا:

خدا كے نزدیک دنیا كی پستی اور ناچیزی كے لیے یہی كافی ہے كہ لوگوں نے بنی اسرائیل كے زنا كاروں كی زناكاری كے لیے حضرت یحیی علیہ السلام كا سر بطور تحفہ بھیجا ۔

اعلام الوری ص 220 مطبوعہ نجف ۔

ارشاد مفید مطبوعہ آخوندی صفحہ 236 ۔

3) عمر بن سعد نے حادثہ كربلا سے پہلے كوفہ میں امام حسین (ع) سے كہا تھا:

بعض احمق یہ خیال كرتے ہیں كہ میں آپ كا قاتل ہوں گا اور آپ میرے ہاتھوں قتل ہوں گے ۔

امام (ع) نے فرمایا:

وہ احمق نہیں ہیں، عقل مند لوگ ہیں، لیكن مجھے خوشی ہے كہ میرے بعد تو عراق كی گندم میں سے كم ہی كھا سكے گا ۔

یعنی تجھے جلد موت آ جائے گی ۔

ارشاد مفید ص 235

4) امام (ع) نے عراق كی طرف روانہ ہوتے وقت بنی ہاشم كو لكھا:

تم میں جو شخص بھی مجھ سے آ ملے گا شہادت كا درجہ پائے گا اور جو شخص پیچھے رہ جائے گا اسے كامیابی حاصل نہ ہو گی ۔

كامل الزیارات ص 75

5) نیز معروف خطبہ " خط الموت علی ولد آدم ۔۔۔۔" كو پڑھا اور موت كے لیے اپنے شوق كا اظہار كیا آپ (ع) نے فرمایا:

گویا میں دیكھ رہا ہوں كہ " نوادیس " اور " كربلا " كے درمیان، جنگل كے بھڑیئے میرے بدن كے ٹكڑے ٹكڑے كر رہے ہیں۔

لھوف ص 53، مطبوعہ تہران

بلاشبہ وہ اپنی شہادت سے آگاہ تھے، اس سفر كے انجام سے واقف تھے اور بارہا اپنے دوستوں اور اہل خاندان سے صراحتاً یا اشارتاً فرماتے تھے کہ اس قیام اور تحریک كا انجام شہادت ہے ۔

6) اس سے پہلے پیغمبر ص اور امیر المؤمنین (ع) اور امام حسن (ع) بھی اس حادثے كی خبر دے چكے تھے حتی كہ امام حسین علیہ السلام كے دنیا میں آنے سے پہلے فرشتوں نے ان كی شہادت كے بارے میں رسول اكرم ص كو اطلاع دے دی تھی ہم تیسری شعبان كی دعا میں پڑھتے ہیں:

اے خدائے بزرگ ! اس كی قسم جو اس دن دنیا میں آیا اور جس كی ولادت سے قبل اور جس كے رونے كی آواز بلند ہونے سے پہلے اس كی شہادت كا وعدہ دے دیا گیا تھا۔

مصباح شیخ طوسی ص 57 مطبوعہ تہران ۔

7) حضرت امام حسین علیہ السلام كی شہادت كا ذكر اس حد تک ہو چكا تھا كہ پیغمبر خدا ص اور حضرت علی (ع) كے ساتھی آپ كے قاتل كو اس كے نام تک سے پہچانتے تھے یہی وجہ ہے كہ جب بھی عمر بن سعد مسجد میں وراد ہوتا تھا حضرت علی (ع) كے اصحاب كہتے تھے:

یہ حسین ابن علی (ع) كا قاتل ہے۔

ارشاد مفید ص 235

8) میثم تمار، حضرت علی (ع) كے وفادار ترین ساتھیوں میں سے تھے ۔ وہ مختار ثقفی كے ساتھ ابن زیاد كے زندان میں محبوس تھے۔ امام حسین علیہ السلام كی كربلا میں آمد سے دس دن پہلے شہید ہوئے ۔ میثم نے قید خانے میں مختار كو اطلاع دی كہ:

تو آزاد ہو جائے گا اور امام حسین علیہ السلام كے خون كا بدلہ لینے كے لیے اٹھ كھڑا ہو گا اور ابن زیادہ كو قتل كرے گا ۔

شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید مطبوعہ 4 جلدی ۔ ج 1 ص 210

9) فضیل بن زبیر نے کہا ہے کہ:

میثم اور حبیب ابن مظاہر كی راستے میں ملاقات ہوئی ۔ دونوں نے باہم سرگوشی كی اور دونوں اس قدر قریب ہو گئے كہ ان كے گھوڑوں كی گردنیں ایک دوسرے كے متوازی آ گئیں، حبیب نے كہا:

میں نے ایک بوڑھے شخص كو دیكھا ہے کہ جس كے سر كے اگلے حصے پر بال نہیں تھے اور جس كا پیٹ بڑھا ہوا تھا اسے خاندان پیغمبر كے ساتھ دوستی كے جرم میں سولی پر چڑھایا گیا اور سولی پر ہی اس كا پیٹ پھاڑ دیا گیا ۔

میثم نے كہا:

میں بھی ایک سرخ چہرہ آدمی كو جانتا ہوں جس كے سر کے بال چہرے كی دونوں جانب پڑے رہتے ہیں اور وہ كوفہ سے پیغمبر كے نواسے كی مدد كے لیے نكلتا ہے اسے قتل كر دیا جاتا ہے، اور اس كے سر كی كوفہ كے بازاروں میں نمائش كی جاتی ہے ۔

اس كے بعد حبیب اور میثم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور وہ لوگ جنھوں نے ان دونوں كی گفتگو سنی تھی كہنے لگے:

كسی شخص كو ہم نے ان دونوں سے زیادہ جھوٹ بولنے والا نہیں دیكھا ۔

ٹھیک اسی وقت وہاں رشید ہجری پہنچ گیا اور اس نے حبیب اور میثم كے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے اسے بتایا كہ وہ دونوں ابھی یہاں تھے اور وہ كہیں چلے گئے اور ہم نے ان دونوں كو یہ اور یہ كہتے سنا ہے ۔

رشید نے كہا:

اللہ تعالی میثم پر رحم فرمائے جو كچھ اس نے كہا تھا وہ درست ہے لیكن وہ یہ كہنا بھول گیا كہ حبیب كا سر كاٹ كر لانے والا دوسروں سے سو درہم زیادہ انعام حاصل كرے گا ۔

فضیل بن زبیر كہتا ہے:

جن لوگوں نے حبیب اور میثم كی باتوں كو جھوٹ قرار دیا تھا بعد میں انھوں نے خود كہا:

خدا كی قسم چند روزے سے زیادہ نہیں گزرے كہ میثم كو عمرو بن حریث كے گھر كے سامنے سولی پر لٹكا دیا گیا اور حبیب كے سركو بھی جو امام حسین علیہ السلام كے ساتھ شہید ہوئے تھے، كوفہ لایا گیا اور جو كچھ انھوں نے كہا تھا ٹھیک وہی واقع ہوا ۔

رجال كشی مطبوعہ دانشگاہ ص 78، 79 ۔

10) انس كہتا ہے:

ہم یہ بات پہلے سے سنتے آئے ہیں كہ امام حسین علیہ السلام كو كربلا میں شہید كیا جائے گا ۔

الخصائص الكبری ج 2 ص 450

ابن عباس كہتے ہیں:

ہمیں اس كے بارے میں كوئی شک و شبہ نہیں تھا اور اہل بیت (ع) بھی اس بات پر متفق تھے كہ حسین (ع) طف (كربلا) میں شہید ہوں گے ۔

الخصائص الكبری ج 2 ص 451

یہ چند مثالیں ہیں جو تاریخ اور حدیث سے نقل كی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے كہ نہ صرف امام حسین علیہ السلام اپنی شہادت سے آگاہ تھے بلكہ دوسروں كو بھی اس بات كا علم تھا ۔

امام كے علم كے بارے میں یہ بات روایات سے ثابت ہے كہ امام تمام چیزوں كا علم ركھتا ہے اور ہر حادثہ كے بارے میں جانتا ہے كہ وہ كہاں واقع ہو گا ۔

اگر ہم اس حقیقت كو نظر انداز بھی كر دیں تب بھی امام حسین (ع) كی شہادت كا مسئلہ كوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جس سے وہ بے خبر تھے ، كیونكہ اس واقعہ كی صحابہ میں پہلے سے شہرت تھی اور پھر رسول اكرم ص اور حضرت علی (ع) نے اس كی بار بار اطلاع دی تھی اس لیے امام حسین علیہ السلام كے اس واقعہ سے بے خبر ہونے كا كوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔

ہمارا یہ یقین ہے كہ جو لوگ یہ خیال كرتے ہیں كہ امام حسین علیہ السلام كو اپنی شہادت كی خبر نہیں تھی یا انھیں اپنے مكہ اور عراق كے سفر كے انجام كی اطلاع نہیں تھی، یہ لوگ حقیقت بین نگاہوں سے محروم ہیں اور انھوں نے مقام امامت كو پہچانے بغیر یہ فیصلہ كیا ہے ۔ حتی كہ تاریخ اور روایات كو بھی انھوں نے نظر انداز كر دیا ہے ۔

پھر بھی آپ (ع) نے كیوں قیام فرمایا ؟

اگر وہ اپنی شہادت سے واقف ہوتے تو آخر كیوں قیام كرتے؟ اگر جانبازی اور شہادت خدا كے حكم سے، ایمان و دین كو زندہ كرنے مسلمانوں كو بیدار كرنے اور منافقین كو بے نقاب كرنے كے لیے پیش كی جائے تو یہ خود سب سے بڑی سعادت اور شرافت ہے ۔

سید بن طاووس نے لکھا ہے کہ:

شاید وہ لوگ جو شہادت كے اعزاز سے واقف نہیں ہیں یہ خیال كرتے ہیں كہ اللہ تعالی كسی شخص كو بھی جانبازی اور شہادت پیش كرنے كا حكم نہیں دیتا ۔

اور شاید وہ لوگ یہ خیال كرتے ہیں كہ اس آیت قرآنی:

" ولا تلقوا بایدیكم الی التھلكة "

خود كو ہلاكت میں مت ڈالو

سورہ بقرہ آیت 195 ۔

كا مطلب یہ ہے كہ شہادت كے لیے آمادہ نہیں ہونا چاہیے حالانكہ ایسا نہیں ہے ۔ شہادت كو قبول كرنا سعادت كا بلند ترین مرتبہ ہے اور اس سے گریز كرنا ہلاكت كا موجب ہے ۔

ابو ایوب انصاری، پیغمبر اسلام ص كے ایک صحابی روایت كرتے ہیں:

جب ہم نے یہ چاہا كہ اپنے بیوی بچوں اور مال كی خاطر پیغمبر اكرم  كی مدد سے ہاتھ كھینچ لیں تو یہ آیت (ولا تلقوا بایدیكم) خود ہمارے بارے میں نازل ہوئی ۔

اب آیت كا مفہوم یہ ہوا كہ اگر پیغمبر كی مدد كرنے میں كوئی كوتاہی كرو گے تو اپنے آپ كو ہلاكت میں ڈال دو گے اور اللہ تعالی تم پر غضبناک ہو گا اور تم نیست و نابود ہو جاؤ گے ۔

لھوف ص 23 ۔ 25

بلاشبہ جو لوگ موت سے ڈرتے ہیں اور اپنی آرام طبی كی عادت كی وجہ سے جہاد اور فدا كاری سے گریز كرتے ہیں اور اللہ كی راہ میں اور احیائے دین كی راہ میں جان و تن قربان كرنے سے پرہیز كرتے ہیں تو وہ یقیناً خود كو نیستی و نابودی كی جانب لے جا رہے ہیں اور انھوں نے اپنے معاشرے كو بھی ضلالت اور گمراہی كی طرف دھكیل دیا ہے ۔

كیا پیغمبروں نے اپنے كثیر مخالفین كے مقابل تن تنہا ثابت قدمی نہیں دكھائی اور لوگوں كو نجات و فلاح كی راہ كی طرف بلانے كا كام انجام دے كر ہر طرح كی تكلیفوں اور مصیبتوں كو برداشت نہیں كیا ؟

اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے بھی حكومت یزید كے مقابل قیام كیا اور اپنا حیات آفرین كارنامہ سر انجام دے كر اپنے خون سے اسلام كے پودے كو سینچا اور اپنی جان كا نذرانہ اللہ تعالی كے حضور پیش كر دیا، اور خود تشنگی كو برداشت كر كے انسانیت كو سیراب كیا ، اور اپنے قیام سے بنی امیہ كو رسوا كیا اور دنیا والوں پر یہ واضح كر دیا كہ اسلام اور خلافت اسلامیہ اور ان ظالموں كی حكومتوں میں زمین و آسمان كا فرق ہے ۔

اس شہادت كی وجہ سے خاندان پیغمبر كی حقیقت اور اصلیت لوگوں پر اچھی طرح واضح ہوئی اور تشیع كو زیادہ استحكام حاصل ہوا اور اہل بیت (ع) كو معارف لوگوں كے سامنے پیش كرنے اور انھیں سكھانے كا موقع ملا اور اس حد تک ملا كہ لوگوں كے دل آئمہ اطہار (ع) كی جانب متوجہ ہو گئے ۔ اور وہ ان كی دانش كے سر چشمے سے فیض حاصل كرنے اور اسلام كے حقیقی علوم سیكھنے كے قابل ہو گئے اور پھر ایسی كتب كی تدوین ہوئی جن كی بدولت آج بھی آئمہ (ع) كے علوم كے ثمرات ہماری دسترس میں ہیں اور ہم دیكھتے ہیں كہ اس لحاظ سے شیعہ بڑے قیمتی ذخیرے كے مالک ہیں جس میں كوئی مكتب فكر ان كی ہمسری نہیں كر سكتا ۔

امام (ع) نے اپنے پر ثمر قیام كے ذریعہ اسلام كے پژمردہ جسم میں جو معاویہ كی سیاست كی وجہ سے مردہ ہو چكا تھا ایک نئی روح پھونک دی ۔ اپنے اور اپنے جوانوں اور دوستوں كے خون سے اور اہل بیت (ع) كی خواتین كی اسیری سے اسلام كو حیات و بقا بخشی اور رسول اكرم ص كے اس بیان حسین منی انا من حسین كو حقیقت كا جامہ پہنا دیا اور اس حقیقت كو سب پر واضح و آشكار كر دیا ۔

اتمام حجت:

مزید یہ كہ اگر امام علیہ السلام كے قیام كو عام قسم كا واقعہ قرار دے كر اس كا جائزہ لیں تب بھی جو كارنامہ آپ نے انجام دیا ہے اس سے بہتر كا كوئی تصور نہیں كیا جا سكتا ۔

امام (ع) نے اپنے مقدس قیام سے دین كے احیاء اور اس كی سر بلندی كا جو كام انجام دیا وہ لوگوں پر اتمام حجت كا سبب بن گیا ۔

اب لوگ یہ نہیں كہہ سكتے تھے كہ اگر ہمیں كوئی رہنما میسر آتا تو ہم اس كے اطراف جمع ہوتے اور بنی امیہ كو مسند خلافت سے اتار دیتے اور اگر امام (ع) قیام كرتے تو ہم ان كی مدد كرتے اور ظالموں كی حكومت كو جڑ سے اكھاڑ پھنكتے، اور اگر ۔۔۔،۔۔ !!

ہم یہ بات جانتے ہیں كہ كوفہ كے لوگ امیر المؤمنین (ع) اور امام حسن (ع) كا ساتھ دینے كے سلسلے میں كوئی اچھا ركارڈ نہیں ركھتے تھے ۔

حضرت علی (ع) ان سے فرماتے تھے:

اے لوگ ! تمہاری شخصیتیں اور تمہارے حالات اور تمہاری خواہشات سب جدا جدا ہیں ۔ خدا كی قسم تمہاری باتوں كو میں سچ نہیں مانتا اور تمہاری رفاقت سے میں كوئی امید نہیں ركھتا ۔

نہج البلاغہ فیض خطبہ 29

كوفیوں كے اسی گندے ماضی كی بنا پر ابن عباس، ابن عمر ، عبد اللہ بن جعفر، محمد حنفیہ، جابر انصاری، عمر بن عبد الرحمن، اور عبد اللہ بن مطیع سب امام حسین علیہ السلام كے سفر كوفہ سے غمناک و افسردہ تھے اور ان میں سے كچھ نے امام حسین علیہ السلام كو كوفہ جانے سے منع بھی كیا تھا ۔

البتہ امام (ع) خود بھی اس خطرے سے بے خبر نہ تھے لیكن اگر وہ كوفیوں كے سفیروں، خطوط اور بہت سے ان پیغامات سے بے اعتنائی برتتے جن میں انھیں جلد كوفہ آنے كی دعوت دی گئی تھی تو یقیناً وہ ساری كوتاہیاں امام (ع) ہی كے كھاتے میں ڈالتے اور ان كی تحقیر كے لیے لوگوں كی زبانیں كھل جاتیں۔

وہ كہتے:

امام (ع) نے ہماری خواہش پر توجہ نہ دی، وہ ہماری فریاد كو نہیں پہنچے اور اس كے نتیجے میں یزید ہم پر مسلط رہا ۔

اسی لیے امام (ع) اتمام حجت كے طور پر ان كی دعوت قبول كر لی اور اپنی ذات كے لیے خطرہ مول لیا اور عراق كے لیے روانہ ہو گئے تا كہ لوگوں كے لیے كوئی عذر باقی نہ رہے اور سب لوگ جان لیں كہ اگر وہ خود ہمت سے كام لیں، شک و شبہے، تفرقے اور آرام طلبی كو الگ كر كے ركھ دیں اور حكومت اسلامی تشكیل دینے كے لیے تیار ہو جائیں تو امام (ع) ان كی دعوت كا مثبت جواب دینے كے لیے موجود ہے اور وہ معاشرہ كی سعادت كی راہ میں كسی مشكل سے نہیں گبھراتا ۔

جیسا كہ تمام آئمہ اطہار (ع) نے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے كہ ہمارے ساتھی كافی تعداد میں ہوں اور تیار ہوں تو ہم اپنے حق كا دفاع كرنے سے باز نہیں رہیں گے اور مسلمانوں كے حقوق دلانے اور معاشرہ كی محرومیوں كو ختم كرنے كے لیے اٹھ كھڑے ہونے میں دریغ نہیں كریں گے ۔

ابن عباس اور دوسروں نے كوفیوں كے سابقہ ریكارڈ كو پیش نظر ركھتے ہوئے ہی امام (ع) كو عراق جانے سے روكا تھا ۔ حتی كہ انھوں نے اس بات پر اصرار كیا كہ امام حسین علیہ السلام یمن چلے جائیں یا كسی اور جائے امن كا رخ كریں لیكن وہ لوگ اس بڑی مصلحت كو سمجھنے سے قاصر تھے كہ امام (ع) كا یمن چلے جانا ، اور كوفیوں كی دعوت كو قبول نہ كرنا، اہل بیت (ع) كے دشمنوں كے لیے بہانہ بن جاتا اور انھیں یہ كہنے كا موقع مل جاتا كہ:

كوفیوں نے نیاز مندی كا ہاتھ امام (ع) كی جانب بڑھایا اور ان كی مدد كے لیے بھی وہ تیار تھے لیكن امام (ع) نے ان كی خواہشات پر كوئی توجہ نہ دی انھیں خود اپنی جان كا خوف لاحق ہو گیا اور وہ تو خود اپنی آسائش كی فكر میں تھے ۔

امام علیہ السلام نے ابن عباس اور دوسروں كی پیشكش كو قبول نہ فرمایا اور باوجودیكہ وہ اپنے سفر كے انجام اور اپنی شہادت سے آگاہ تھے عراق كی جانب روانہ ہو گئے تا كہ لوگوں كی ان پر كوئی حجت نہ رہے اور دشمنوں كو خاندان رسالت كے خلاف پروپگنڈے كے لیے كوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے اور وہ اس كی بنا پر لوگوں كو اسلام سے منحرف كرنے كی كوشش نہ كر سكیں ۔

اس طرح امام علیہ السلام اٹھ كھڑے ہوئے اور دشت كربلا كے ایک گوشے كو اپنے اور اپنے دوستوں كے خون سے گل زار كر دیا اور شہادت كے وہ گل كھلا دیئے کہ جن كی تازگی باغ انسانیت كو ہمیشہ سر سبز و شاداب ركھے گی ۔

امام نے اپنی مقدس اور خونین فریاد سے دنیا میں یہ اعلان كیا كہ:

حسین (ع) نے اپنا فرض ادا كر دیا اور یہ لوگ بے ایمان اور بے وفا تھے اس لیے انھوں نے اس كی مدد سے ہاتھ كھنچ لیا اور اسے تنہا چھوڑ دیا اور اسے دشمنوں كے حوالے كر دیا ۔

مختصر یہ كہ:

امام حسین علیہ السلام كا قیام ان كی كامل آگاہی كے ساتھ عمل میں آیا تھا اور وہ اس كے خونین انجام سے آگاہ تھے ۔

ان كا یہ قیام خدا كے حكم، اس كی رضا اور اس كی خواہش كی بنا پر تھا اور اسی راستے سے امام اور ان كے ساتھیوں كو بہترین سعادتیں حاصل ہوئیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے ایسے حالات میں قیام فرمایا جب كہ شجر اسلام كو اس طرح كی آبیاری كی سخت ضرورت تھی اور اگر امام حسین علیہ السلام اس موقع پر قیام نہ فرماتے اور حكومت یزید اور اس كے كاموں پر رضایت کا اظہار فرماتے رہتے تو اسلام كا درخت نہ صرف سوكھ جاتا بلكہ دشمن اسے جڑ سے اكھاڑ كر پھینک دیتے ۔

اس قیام كے سبب لوگوں پر اتمام حجت ہو گئی اور سب نے جان لیا كہ انھوں نے امام علیہ السلام كا ساتھ دینے میں كوتاہی برتی جس كی بنا پر وہ یزید كی ظالم و جابر حكومت كے جال میں پھنس گئے ۔

حضرت امام حسن و امام حسین اور سیاست:

حضرت امام حسن (ع) اور سیاست:

حضرت امام حسن کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم واقعہ جو کہ ہر تاریخ نگار کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتا ہے، وہ صلح امام حسن ہے۔

جب دشمن ایک دوسرے کے روبرو قرار پاتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو باطل پر ثابت کرنے کی کوشش کریں اور اصل ہدف بھی یہی ہوتا ہے لیکن جب تک انسان کا باطن لوگوں کے سامنے نہ آ جائے یا یوں کہہ لیجئے کہ جب تک لوگ ہارنے والے یا جیتنے والے کے باطن سے آگاہ نہ ہو جائیں اس وقت تک اسکے بار ے میں صحیح رائے قائم نہیں کر پاتے اگر امام حسن معاویہ سے جنگ کر کے جیت بھی جاتے تب بھی لوگ یہی خیال کرتے کہ شاید معاویہ حق پر تھا یا یہ کہ یہ جنگ ناحق لڑی گئی لیکن امام حسن نے معاویہ کے ساتھ صلح کر کے لوگوں کے سامنے اس کے باطن کی پہچان کروا دی۔

جب امام حسن نے معاویہ کے بھیجے ہوئے سادے کاغذ پر اپنی شرائط لکھ کر دے دیں تو معاویہ کوفہ میں داخل ہوا اور اس نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں کہا:

میں نے اس لیے تم سے جنگ نہیں لڑی کہ تم نماز اور حج بجا لاؤ اور زکوٰة دو کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ یہ کام انجام دیتے ہو۔ میں نے اس لیے تمہارے ساتھ جنگ کی ہے تا کہ تم کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بناؤں اور تم لوگوں پر حکومت کروں۔

اور اسکے بعد کہا:

یاد رکھو ! اللہ نے ہمارے لیے ہماری بات کو درست کر دیا ۔ ہماری دعوت کو عزت دی ، تو اب جن شرطوں کو میں نے مانا تھا ان سب سے میں انکار کرتا ہوں ،اور ہر وہ وعدہ جو میں نے تم میں سے کسی ایک سے بھی کیا تھا وہ میرے پیروں تلے روندا جا چکا ہے۔

یہاں سے لوگ سمجھ گئے کہ کون اسلام کی خاطر جنگ کر رہا تھا اور کس کو صرف حکومت چاہیے تھی۔

حضرت امام حسین (ع) اور سیاست:

حضرت امام حسین نے صرف یزید ہی کے خلاف آواز بلند نہیں کی بلکہ معاویہ کے زمانے میں بھی آپ نے لوگوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائی کے معاویہ خلافت اور حکومت کے لائق نہیں ہے۔

سن 58 ہجری میں حج کے موقع پر آپ نے سر زمین منٰی میں بنی ہاشم اور انصار کے برجستہ افراد کی ایک کانفرنس بلائی جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا:

اس طاغوت (معاویہ) نے جو کچھ ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ کیا ہے وہ سب آپ لوگ جانتے ہیں۔ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اگر سچ کہوں تو میری تصدیق کیجئے گا، اور اسکے بعد اپنے ملک یا شہر واپس جانے کے بعد میری باتوں کو لوگوں تک پہنچائے اور ان کو معاویہ کی بد اعمالیوں سے آگاہ کیجئے اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیجئے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اس حالت کے باقی رہنے کی وجہ سے حق نابود نہ ہو جائے لیکن خدا اپنے نور کی تکمیل کرے گا چاہے کافر یا فاسق اس کو پسند نہ کریں۔

احتجاج طبرسی ج 2 ص 18۔ 19

کربلا کے واقعہ سے 3 سال پہلے معاویہ کی زندگی میں امام حسین نے حج کے موقع پر حکومت کے خلاف لوگوں کو قیام کی دعوت دی۔

کربلا:

امام حسین کی کربلا کی تحریک ایک مکمل سیاسی تحریک تھی اگر دین سیاست سے جدا ہوتا تو پھر امام حسین کے لیے ضروری تھا کہ وہ مدینہ میں کونے میں بیٹھ جاتے اور عراق کی طرف حرکت نہ کرتے اس صورت میں کوئی بھی آپ سے کچھ نہ کہتا۔

اگر ہم کربلا کے واقعے کی تحلیل کریں اور اس واقعے کا مطالعہ کریں تو ہم کو مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں نتیجہ ملے گا:

1- یزید نے امام حسین سے بیعت لینا چاہی امام نے انکار کر دیا۔

2- امام حسین نے فوج جمع کرنے اور یزید کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے عراق کی طرف کوچ کیا۔

3- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نے امام حسین کو اس بات کی طرف مائل کیا کہ وہ ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑنے اور عدل کو برقرار کرنے کے لیے شہادت کی سرحد تک جہاد کریں۔

مندرجہ بالا تینوں چیزیں سیاسی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عین دین بھی ہیں۔

امام حسین ہر چند کہ ظاہری طور پر شکست سے دوچار ہوئے لیکن تا قیامت آگاہی اور روشنی کا ایک ایسا راستہ چھوڑ گئے کہ حق کے متلاشی انسان کے لیے صراط مستقیم کا سامان فراہم کرے۔

کیا خوب تجزیہ کیا ہے عربی زبان کے ادیب نے:

کربلا میں روز عاشور کامیابی ، ناکام ہونے والوں کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔

کتاب ابو الشہدا عباس عقاد ص181

امام حسن، پیغمبر اسلام کی نظر میں:

ایک صحابی کا بیان ہے کہ:

میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ وہ ایک کندھے پر امام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے جا رہے ہیں اور باری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں۔

ایک صحابی کا بیان ہے کہ: ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پر سوار ہو گئے کسی نے روکنا چاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کر دیا۔

اصابہ ج 2 ص 12

ایک صحابی کا بیان ہے کہ: میں اس دن سے امام حسن کو بہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔

نور الابصار ص119

ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کیے ہوئے کہیں لیے جا رہے تھے کہ ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے۔ یہ سن کر آنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے۔

اسد الغابة ج 3 ص 15 بحوالہ ترمذی

بخاری اور مسلم لکھتے ہیں کہ: ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کو کندھے پر بٹھائے ہوئے فرما رہے تھے: خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما ۔

حافظ ابو نعیم ابو بکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ایک دن آنحضرت نماز جماعت پڑھا رہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اور وہ دوڑ کر پشت رسول پر سوار ہو گئے یہ دیکھ کر رسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سر اٹھایا، اختتام نماز پر آپ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میرا گل امید ہے۔ ابنی ھذا سید، یہ میرا بیٹا سید ہے اور دیکھو یہ عنقریب دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔

نسائی، عبد اللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ: ایک دن نماز عشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نماز میں مشغول ہو گئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ میرا فرزند میری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں، جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے، اس لیے سجدہ کو طول دینا پڑا۔

حکیم ترمذی ، نسائی اور ابو داؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اور حسن کے پاؤں دامن عبا میں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ شروع فرمایا۔

مطالب السؤل ص 223

کیا امام حسن مجتبىٰ (ع) نے بہت سارى عورتوں سے ازدواج کر کے انھیں طلاق دی ہے؟

تفصیلی جواب:

افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے حدیثى منابع کو درپیش بڑى آفتوں میں سے ایک آفت ، احادیث جعل کر کے انہیں صیحح احادیث کے بیچ میں درج کرنا ہے ـ اس کام کے پیچھے سیاسى اور مذہبى وغیره عوامل تھے اور کبھى یہ کام اموى اور عباسى حکام کے منفور شخصیتوں کو صیحح دکھانے کى غرض سے اور کبھى قابل قدر شخصیتوں کو مسخ کر کے پیش کرنے کى غرض سے آنجام پاتا تھاـ اس لیےجعلى احادیث کے درمیان میں سے صیحح احادیث کو  تشخیص دینا بہت ہى اہم لیکن مشکل کام ہے۔

امام حسن مجتبى علیه اسلام ایک ایسى شخصیت ہیں ، جو مسموم اور جعلى احادیث کے حملوں کا نشانہ قرار پائے ہیں ، لیکن خوش قسمتى سے احمق دشمنوں نے اب کى بار ان پر تعدد ازدواج اور زیاده اطلاق دینے کى تہمت لگائى ہےـ یہ ایک ایسا اتہام ہے جس کا امام حسن مجتبى ع جیسى شخصیت کے بارے میں بے بنیاد ہونا مکمل طور پر واضح ہے۔

اس قسم کى بعض روایتوں میں آیا ہے کہ امام على (ع) نے اس مرد کو کہ جو اپنى بیٹى کے رشتے کے بارے میں حسن (ع) ، حسین (ع) اور عبد الله بن جعفر سے مشورت کرنے کے لیے آپ (ع) کى خدمت میں آیا تھا، کو فرمایا: جان لو که حسن (ع) زیاده طلاق دیتا ہےـ اپنى بیٹى کو حسین (ع) کے ساتھـ ازدواج کرنا کیونکہ وه تیرى بیٹى کے لیے بہتر ہےـ

حیاۃ الا مام الحسن (ع) تالیف :باقر شریف القرشى ج2،ص457ـ472 (دارالکتب العمیه)

ایک اور روایت میں آیا ہے که امام صادق علیه اسلام نے فرمایا: حسن بن على (ع) نے پچاس بیویوں کو طلاق دى ہے، یہاں تک حضرت على علیه اسلام کوفہ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے کوفیو! حسن کو اپنى بیٹى نہ دینا کیونکہ وه زیاده طلاق دیتا ہےـ ایک شخص اٹھا اور کہا : خدا کى قسم ہم ایسا ہى کریں گے، کیونکہ وه رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم اور فاطمہ زہراء (س) کے فرزند ہیں، اگر چاہے اپنى بیوى کو رکھے اور اگر نہ چاہے تو اسے طلاق دےـ

"نظام حقوق زن در اسلام"، تالیف : شهید مطهرى،ص306ـ309 (انتشارات صدرا)

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ امام باقر علیه اسلام نے فرمایا: على (ع) نے کوفیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: حسن (ع) کو کوئى عورت نہ دے کیونکہ وه زیاده طلاق دیتا ہےـ

"زندگى امام حسن(ع) تالیف : مهدى پیشوائى،ص31ـ39(انتشارات جوان)

اہل سنت کى بعض تاریخى کتابوں ، جیسے انساب الاشراف، قوت القلوب، احیاء العلوم اور ابن ابى الحدید معتزلى کى شرح ، نہج البلاغہ وغیره میں بھى یہى مطالب تکرار ہوئے ہیں، چونکہ کہاوت ہے کہ جھوٹ جتنا بڑا ہو اسے قبول کرنا آسان تر ہوتا ہے، بعض جعلیات میں حضرت (ع) کى طلاق شده بیویوں کى تعداد کو تین سو تک پہنچا دیا گیا ہے۔

قوت القلوب ابوطالب مکی.

کہ یہ سب روایتیں ضعیف ، فاقد اعتبار اور عقل و منطق کے خلاف ہیں۔ بہت سے تاریخى اور اعتقادى شواہد موجود ہیں جو مذکوره روایتوں کے صحیح نہ ہونے کى دلالت پیش کرتے ہیں، جن میں سے چند ایک کى طرف ہم ذیل میں اشاره کرتے ہیں:

1ـ حضرت امام حسن مجتبى علیه اسلام دوسرى یا تیسرى ہجرى میں 15 رمضان المبارک کو پیدا ہوئے ہیں اور 28 صفر 49 ہجرى کو شهید ہوئے ہیں۔ آپ (ع) کى عمر شریف 46 یا 47 سال سے زیاده نہیں تھى ـ بالفرض اگر حضرت (ع) کى پہلى شادى بیس سال کى عمر میں انجام پائى ہو تو آپ (ع) کے والد گرامى کى شہادت کے سال 40 ہجرى یعنى 18 یا 17 سال کى مدت میں یہ شادیاں اور طلاق واقع ہوئے ہونے چاہیےـ جبکہ امام حسن مجتبى علیه اسلام نے اپنے والد گرامى کے پانچ سالہ حکومت کے دوران تمام تین جنگوں یعنى جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں شرکت کى ہے اور اس کے پیش نظر کہ حضرت (ع) نے بیس بار مدینہ سے پیدل جا کر حج کے فرائض انجام دیئے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے پاس اتنى شادیاں کرنے کى فرصت پیدا ہوتى ـ اس لحاظ سے اس قسم کى روایتوں کو قبول کرنا ایک نا معقول امر ہے۔

2ـ اکثر روایتیں ، جو احادیث کى کتابوں میں نقل ہوئى ہیں امام صادق علیه اسلام سے منقول ہیں، یعنى یہ مطلب امام حسن مجتبى علیه اسلام کے زمانے کے ایک سو سال بعد پیش کیا جاتا ہے، کیونکہ امام جعفر صادق علیه اسلام کى شہادت 148 ہجرى میں اور حضرت امام مجتبىٰ علیه اسلام کى شهادت 48 ہجرى میں واقع ہوئى ہےـ اگر حقیقت میں یہ روایتیں حضرت امام صادق (ع) سے ہوں، تو سوچنے کا مقام ہے کہ حضرت امام صادق (ع) ایک صدى گزرنے کے بعد ان روایتوں کو بیان کرنے میں کیا مقصد رکھتے تھے؟ کیا وه حضرت امام حسن مجتبىٰ علیه اسلام کے خاندانى بحران کو طشت از جام کرنا چاہتے تھے؟! تعجب کى بات ہے کہ یہ مطلب اسى زمانے میں ، اہل بیت اطہار علیهم اسلام کے جانى دشمن منصور دوانقى کى زبان پر جارى ہوتے ہیں۔

مشہور مورخ مسعودى نے اپنى کتاب "مروج الزهب" میں، خراسانیوں کے ایک اجتماع میں منصور دوانقى کى ایک تقریر کو یوں نقل کیا ہے: خدا کى قسم ہم نے فرزندان ابو طالب کو خلافت کرنے سے کبھى نہیں روکا ہے اور کسى صورت میں ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ على بن ابیطالب نے خلافت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور جب حکومت کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو حکمیت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ـ لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا چہ مىگوئیاں ہونے لگیں ، یہاں تک کہ ایک گروه نے ان پر حملہ کیا اور انہیں قتل کر ڈالاـ ان کے بعد ، حسن بن على اٹھے ـ وه ایسے شخص نہیں تھے کہ اگر کوئى مال پیش کیا جاتا، تو اسے لیتےـ معاویہ نے چالبازى اور حلیے سے انہیں اپنا ولى عهد بنایا اور اس کے بعد انہیں معزول کیا ـ انهوں نے عورتوں کى طرف رخ کیاـ کوئى ایسا دن نہیں تھا جب وه ازدواج نہ کرتے یا طلاق نہ دیتے ـ یہاں تک که بستر پر اس دنیا سے چلے گئےـ

مروج الزھب،3 ص 300.

3ـ اگر یہ بات حقیقت ہوتى ، تو ان کے جانى دشمنوں اور بهانہ تلاش کرنے والوں کو آپ (ع) کى زندگى کے دوران اس پر اعتراض کرنا چاہیے تھا، جبکہ وه آپ (ع) کے بارے میں معمولى چیزوں ، یہاں تک کہ آپ (ع) کے لباس کے رنگ پر بھى اعتراض کرتے تھےـ اگر یہ بات صحیح ہوتى تو دشمنوں کے لیے ایک بڑا بهانہ اور نقطہ ضعف ہاتھ آتا اور ضرور اس پر انگلى اٹھاتے ، لیکن اس زمانے کے بارے میں ایسى کوئى گزارش نقل نہیں کى گئى ہے۔

4ـ تاریخ کى کتابوں میں امام حسن مجتبى علیه اسلام کى بیویوں، فرزندوں اور دامادوں کى جو تعداد نقل کى گئى ہے، وه حضرت (ع) کى بیویوں کى اس تعداد سے سازگار نہیں ہےـ آپ کے زیاده سے زیاده فرزندوں کى تعداد 22 اور کم سے کم 12 بتائى گئى ہے۔ آپ کى بیویوں کے طور پر صرف 13 نام ذکر ہوئے ہیں لیکن ان میں سے تین بیویوں کے حالات کے علاوه کسى کى تفصیلات معلوم نہیں ہیں اس کے علاوه تاریخ کى کتابوں میں آپ (ع) کے تین دامادوں کے علاوه کسى کا ذکر نہیں ہوا ہےـ

حیاۃ الامام الحسن(ع) ،ج 2، ص463ـ469 و ص457.

5ـ طلاق کے قبیح ہونے کے بارے میں بہت سى روایتیں دلالت کرتى ہیں۔ یہ روایتیں شیعوں اور اہل سنت کى حدیث کى کتابوں میں مکرر طور پر نقل ہوئى ہیں۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: خدا کے پاس حلال کاموں میں سب سے قابل نفرت کام طلاق ہےـ

سنن ابی داود،ج2 ، ص632، ح2178.

امام صادق علیه اسلام نے فرمایا:"

تزوجوا و لا تطلقوا فان الطلاق یھتز منه العرش.

شادى کرنى چاہیے لیکن طلاق نہیں دینا چاہیے ، کیونکہ طلاق عرش الهىٰ کو ہلا کر رکھتا ہےـ

وسائل الشیعه ،ج15، ص268; مکارم الاخلاق، ص225

اس کے علاوه حضرت امام صادق علیه اسلام اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے ہیں:

ان الله عزوجل یبغض کل مطلاق و ذواق.

خداوند اس شخص کو دشمن رکھتا ہے جو زیاده طلاق دیتا ہو اور جنسى لذت کے تنوع کے پیچھے جاتا ہو۔

وسائل الشیعه ،ج15،ص 267،ح3،

اس کے پیش نظر کیا ممکن ہے کہ ایک معصوم امام مکرر طور پر ایسا کام انجام دے اور ان کے والد بھى انہیں اس کام سے نہ روک سکیں !!

6ـ امام حسن مجتبى علیه اسلام اپنے زمانے کے عابد تریں اور زاہد ترین انسان تھےـ

فراید السمطین ،ج2، ص68: بحارلانوار،ج 16، ص 60.

وه ہر وقت اس طرح اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتے تھے:

انی لاستحیی من ربى ان القاه ولم امش الی بیته ، فمشی عشرین مرۃ من المدینۃ على رجلیه.

میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کا احساس کرتا ہوں کہ میں اس حالت میں اس سے ملاقات کروں جبکہ میں اس کے گھر کى طرف پیدل نہ گیا ہوں۔

بحارالانوار،ج43، ص399،

آپ (ع) بیس بار مدینہ سے پیدل حج پر گئے اور حج کے اعمال بجا لائے، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ (ع) اس قسم کے اعمال کے مرتکب ہوں ؟

7ـ مطلاق " زیاده طلاق دینے " کى صفت جاہلیت کے زمانے میں بھى قابل مذمت تھی۔ جب حضرت خدیجہ سلام الله علیها نے اپنے چچا زاد بھائى ورقہ سے اپنے رشتے کے بارے میں صلاح مشوره کیا کہ ان میں سے کس کو مثبت جواب دیں، تو ورقہ نے جواب میں کہا : شیبہ کافى بدگمان شخص ہے، اور عقبہ بوڑھا ہے، ابو جهل ایک متکبر اور بخیل شخص ہے اور صلت ایک مطلاق (زیاده طلاق دینے والا) ہےـ اس وقت حضرت خدیجہ سلام الله علیها نے کہا: ان پر خدا کى نفرین ہو ، کیا تم جانتے ہو کہ کسى اور مرد نے بھی میرے رشتے کى بات کی ہے؟

قابل غور بات ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ جو خصلت زمانہ جاہلیت میں بھى قابل مذت تھى اور اس زمانے کی عورتیں حاضر نہیں تھیں کہ کسى "مطلاق" ( زیاده طلاق دینے والے ) کے ساتھـ شادى کریں، اور حضرت على علیه اسلام نے اپنے ایک زاہد و متقى فرزند کے بارے میں ایسى توصیف کى ہو گى؟ اور ایک معصوم امام اس قسم کى ناپسند خصلت سے آلوده ہو جائے جو خدا کے غضب کا سبب بنتى ہو؟!

یہ چند ثبوت تھے جو ان روایتوں کے بے بنیاد ہونے کى دلالت پیش کرتے ہیں۔

اس بنا پر ان ضعیف مضامین اور جعلى روایتوں کو ایک ایسى شخصیت کے بارے میں قبول نہیں کیا جا سکتا ہے، جن کى متعدد روایات کے مطابق پیغمبر اسلام صلى الله علیه وآله وسلم نے تعریف و تمجید کى ہوـ

 مقاله : تاملى دراحادیت کثرت طلاق ، مھدی مھریزى ، مجله پیام زن ، تیر 77 ، شماره 76.

امام حسن مجتبى (ع) كی سوانح عمری:

بچپن كا زمانہ:

على (ع) اور فاطمہ (ع) كے پہلے بيٹے 15 رمضان 3 ہجری كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے۔

ارشاد مفيد ص 187

تاريخ الخلفاء سيوطى ص188

پيغمبر (ص) اكرم تہنيت و مبارک دینے كيلئے جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لائے اور خدا كى طرف سے اس بچہ كا نام حسن ركھا۔

بحار الانوار ج 43 ص 238

امام حسن مجتبى (ع) سات سال تک پيغمبر (ص) اسلام كے ساتھ رہے۔

دلائل الامامہ طبرى ص 60

رسول اكرم (ص) اپنے نواسے سے بہت پيار كرتے تھے۔ كبھى کاندھے پر سوار كرتے اور فرماتے:

اللہم انى احبّہ فاحبّہ

خدايا ميں اس كو دوست ركھتا ہوں تو بھى اس كو دوست ركھ۔

تاريخ الخلفاء ص188 ،

تذكرة الخواص ص177 

اور پھر فرماتے:

من احبّ الحسن و الحسين(ع) فقد احبّنى و من ابفضہا فقد ابغضني،

جس نے حسن (ع) و حسين (ع) كو دوست ركھا اس نے مجھ كو دوست ركھا اور جو ان سے دشمنى كرتا ہے وہ ميرا دشمن ہے۔

بحار الانوار ج 43 ص 264،

كشف الغمہ ج 1 ص550

سنن ترمذى ج 5 ص7

امام حسن (ع) كى عظمت اور بزرگى كے لیے اتنا ہى كافى ہے كہ كم سنى كے باوجود پيغمبر (ص) نے بہت سے عہد ناموں ميں آپ كو گواہ بنايا تھا۔ واقدى نے نقل كيا ہے كہ پيغمبر (ص) نے قبيلہ ثقيف كے ساتھ ذمّہ والا معاہدہ كيا، خالد بن سعيد نے عہد نامہ لكھا اور امام حسن و امام حسين عليہما السلام اس كے گواہ قرار پائے۔

طبقات كبير ج 1 حصہ 2 ص23

والد گرامى (ع)  كے ساتھ:

رسول اكرم كى رحلت كے تھوڑے ہى دنوں بعد آپ كے سر سے چاہنے والى ماں كا سايہ بھى اٹھ گيا۔ اس بنا پر اب تسلى و تشفى كا صرف ايک سہارا على (ع) كى مہر و محبت سے مملو آغوش تھا امام حسن مجتبى (ع) نے اپنے باپ كى زندگى ميں ان كا ساتھ ديا اور ان سے ہم آہنگ رہے۔ ظالموں پر تنقيد اور مظلوموں كى حمايت فرماتے رہے اور ہميشہ سياسى مسائل كو سلجھانے ميں مصروف رہے۔

جس وقت عثمان نے پيغمبر (ص) كے عظيم الشان صحابى جناب ابوذر كو شہر بدر كر كے رَبَذہ بھيجنے كا حكم ديا تھا، اس وقت يہ بھى حكم ديا تھا كہ كوئی بھى ان كو رخصت كرنے نہ جائے۔ اس كے برخلاف حضرت على (ع) نے اپنے دونوں بيٹوں امام حسن اور امام حسين عليہما السلام اور كچھ دوسرے افراد كے ساتھ اس مرد آزاد كو بڑى شان سے رخصت كيا اور ان كو صبر و ثبات قدم كى وصيت فرمائی۔

حياة الامام حسن ج 1 ص 20

مروج الذہب ج 2 ص341

تاريخ يعقوبى ج 2 ص 172

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 8 ص252_ 255

36 ہجری ميں اپنے والد بزرگوار كے ساتھ مدينہ سے بصرہ روانہ ہوئے تا كہ جنگ جمل كى آگ جس كو عائشہ و طلحہ و زبير نے بھڑكايا تھا، بجھا ديں۔

بصرہ كے مقام ذى قار ميں داخل ہونے سے پہلے على (ع) كے حكم سے عمار ياسر كے ہمراہ كوفہ تشريف لے گئے تا كہ لوگوں كو جمع كريں۔ آپ كى كوششوں اور تقريروں كے نتيجہ ميں تقريباً بارہ ہزار افراد امام كى مدد كے لیے آ گئے۔

كامل ابن اثير ج 3 ص227_ 231

آپ نے جنگ كے زمانہ ميں بہت زيادہ تعاون اور فداكارى كا مظاہرہ كيا يہاں تک كہ امام (ع) كے لشكر كو فتح نصيب ہوئی۔

حياة الامام الحسن ج 1 ص396_ 399

جنگ صفين ميں بھى آپ نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ ثبات قدمی كا مظاہرہ فرمايا۔ اس جنگ ميں معاويہ نے عبد اللہ ابن عمر كو امام حسن مجتبى (ع) كے پاس بھيجا اور كہلوايا كہ آپ اپنے باپ كى حمايت سے دست بردار ہو جائيں تو ميں خلافت آپ كے لیے چھوڑ دونگا۔ اس لیے كہ قريش ماضى ميں اپنے آباء و اجداد كے قتل پر آپ كے والد سے ناراض ہيں ليكن آپ كو وہ لوگ قبول كر ليں گے۔

ليكن امام حسن (ع) نے جواب ميں فرمايا: نہيں ، خدا كى قسم ايسا نہيں ہو سكتا، پھر اس كے بعد ان سے خطاب كر كے فرمايا: گويا ميں تمہارے مقتولين كو آج يا كل ميدان جنگ ميں ديكھوںگا، شيطان نے تم كو دھوكہ ديا ہے اور تمہارے كام كو اس نے اس طرح زينت دى ہے كہ تم نے خود كو سنوارا اور معطّر كيا ہے تا كہ شام كى عورتيں تمہيں ديكھيں اور تم پر فريفتہ ہو جائيں ليكن جلد ہى خدا تمہیں موت دے گا۔

وقعہ صفين ص297

امام حسن اس جنگ ميں آخر تک اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ رہے اور جب بھى موقع ملا دشمن پر حملہ كرتے اور نہايت بہادرى كے ساتھ موت كے منہ ميں كود پڑتے تھے۔

آپ (ع) نے ايسى شجاعت كا مظاہرہ فرمايا كہ جب حضرت على (ع) نے اپنے بيٹے كى جان، خطرے ميں ديكھى تو مضطرب ہوئے اور نہايت درد كے ساتھ آواز دى كہ:

املكو عنّى ہذا الغلام لا يہدّنى فانّنى انفس بہذين يعنى الحسن و الحسين على الموت لئلا ينقطع بہما نسل رسول اللہ

اس نوجوان كو روكو تا كہ اسكى موت مجھے شكستہ حال نہ بنا دے۔ ميں ان دونوں حسن و حسين عليہما السلام كى موت سے ڈرتا ہوں كہ ان كى موت سے نسل رسول (ص) خدا منقطع نہ ہو جائے۔

نہج البلاغہ فيض الاسلام خطبہ 198 ص 11660

واقعہ حكميت ميں ابو موسى كے ذريعہ حضرت على (ع) كے برطرف كر ديئے جانے كى دردناک خبر عراق كے لوگوں كے درميان پھيل جانے كے بعد فتنہ و فساد كى آگ بھڑک اٹھى۔ حضرت على (ع) نے ديكھا كہ ايسے افسوسناک موقع پر چاہيے كہ ان كے خاندان كا كوئی ايک شخص تقرير كرے اور ان كو گمراہى سے بچا كر سكون اور ہدايت كى طرف رہنمائی كرے لہذا اپنے بيٹے امام حسن (ع) سے فرمايا: ميرے لال اٹھو اور ابو موسى و عمرو عاص كے بارے ميں كچھ كہو، امام حسن مجتبى (ع) نے ايک پر زور تقرير ميں وضاحت كى كہ:

ان لوگوں كو اس لیے منتخب كيا گيا تھا تا كہ كتاب خدا كو اپنى دلى خواہش پر مقدم ركھيں ليكن انہوں نے ہوس كى بنا پر قرآن كے خلاف فيصلہ كيا اور ايسے لوگ حَكَم بنائے جانے كے قابل نہيں بلكہ ايسے افراد محكوم اور مذمت كے قابل ہيں۔

الامامہ و السياسة ج 1 ص 119

حياة الامام الحسن ج 1 ص 444

شہادت سے پہلے حضرت على (ع) نے پيغمبر (ص) كے فرمان كى بناء پر حضرت حسن (ع) كو اپنا جانشين معين فرمايا اور اس امر پر امام حسين (ع) اور اپنے تمام بيٹوں اور بزرگ شيعوں كو گواہ قرار ديا۔

اصول كافى ج 1 ص 297

اخلاقى خصوصيات:

امام حسن (ع) ہر لحاط سے حسن تھے آپ كے وجود مقدس ميں انسانيت كى اعلى ترين نشانياں جلوہ گر تھيں۔

جلال الدين سيوطى اپنى تاريخ كى كتاب ميں لكھتے ہيں كہ:

حسن (ع) بن على (ع) اخلاقى امتيازات اور بے پناہ انسانى فضائل كے حامل تھے ايک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متين، سخی، نيز لوگوں كى محبتوں كا مركز تھے۔

تاريخ الخلفاء ص189

ان كے درخشاں اور غير معمولى فضائل ميں سے کچھ يہاں پر پيش كیے جار ہے ہيں:

پرہيزگاری:

آپ خدا كى طرف سے مخصوص توجہ كے حامل تھے اور اس توجہ كے آثار كبھى وضو كے وقت آپ كے چہرہ پر لوگ ديكھتے تھے جب آپ وضو كرتے تو اس وقت آپ كا رنگ متغير ہو جاتا اور آپ كاپنے لگتے تھے۔ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے كہ:

حقٌ على كل من وقف بين يدى رب العرش ان يصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ،

جو شخص خدا كے سامنے كھڑا ہو اس كے لیے اس كے علاوہ اور كچھ مناسب نہيں ہے۔

مناقب ابن شہر آشوب ج 4 ص14

امام جعفر صادق نے فرمايا: امام حسن (ع) اپنے زمانہ كے عابد ترين اور زاہد ترين شخص تھے۔ جب موت اور قيامت كو ياد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہو جاتے تھے۔

بحار الانوار ج 43 ص 331

امام حسن (ع) اپنى زندگى ميں 25 بار پيدل اور كبھى پابرہنہ زيارت خانہ خدا كو تشريف لے گئے تا كہ خدا كى بارگاہ ميں زيادہ سے زيادہ ادب و خشوع پيش كر سكيں اور زيادہ سے زيادہ اجر ملے۔

بحار ج 43 ص331

تاريخ الخلفاء ص190

مناقب ابن شہر آشوب ج 4 ص14

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص10

تذكرة الخواص ص178

سخاوت:

امام (ع) كى سخاوت اور عطا كے سلسلہ ميں اتنا ہى بيان كافى ہے كہ آپ نے اپنى زندگى ميں دوبار تمام اموال اور اپنى تمام پونجى خدا كی راہ ميں ديدى اور تين بار اپنے پاس موجود تمام چيزوں كو دو حصوں ميں تقسيم كيا۔ آدھا راہ خدا ميں ديديا اور آدھا اپنے پاس ركھا۔

 تاريخ يعقوبى ج 2 ص215،

 بحار الانوار ج 43 ص 332،

 تاريخ الخلفاء ص190،

 مناقب ج 4 ص14

ايک دن آپ نے خانہ خدا ميں ايک شخص كو خدا سے گفتگو كرتے ہوئے سنا وہ كہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم ديدے۔ امام اسى وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص كو دس ہزار درہم بھيج ديئے۔

كشف الغمہ مطبوعہ تبريز ج 1 ص558

ايک دن آپ كى ايک كنيز نے ايک خوبصورت گلدستہ آپ كو ہديہ كيا تو آپ (ع) نے اس كے بدلے اس كنيز كو آزاد كر ديا۔ جب لوگوں نے اس كى وجہ پوچھى تو آپ نے فرمايا كہ خدا نے ہمارى ايسى ہى تربيت كى ہے پھر اس كے بعد آپ (ع) نے آيت پڑھی:

و اذا حُيّيتم بتحيّة، فحَيّوا باحسن منہا، سورہ نساء آیت86

جب تم كو كوئی ہديہ دے تو اس سے بہتر اس كا جواب دو۔

بحار الانوار ج 43 ص342

بردباری:

ايک شخص شام سے آيا ہوا تھا اور معاويہ كے اكسانے پر اس نے امام (ع) كو برا بھلا كہا امام (ع) نے سكوت اختيار كيا ، پھر آپ نے اس كو مسكرا كر نہايت شيرين انداز ميں سلام كيا اور كہا:

اے ضعيف انسان ميرا خيال ہے كہ تو مسافر ہے اور ميں گمان كرتا ہوں كہ تو اشتباہ ميں پڑ گيا ہے۔ اگر تم مجھ سے ميرى رضا مندى كے طلبگار ہو يا كوئی چيز چاہيے تو ميں تم كو دونگا اور ضرورت كے وقت تمہارى راہنمائی كروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو ميں اس قرض كو ادا كروں گا۔ اگر تم بھوكے ہو تو ميں تم كو سير كر دونگا ... اور اگر ، ميرے پاس آؤ گے تو زيادہ آرام محسوس كرو گے۔ وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض كی: ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ زمين پر خدا كے خليفہ ہيں۔ خدا بہتر جانتا ہے كہ وہ اپنى رسالت كو كہاں قرار دے۔ آپ اور آپ كے والد ميرے نزديک مبغوض ترين شخص تھے ليكن اب آپ ميرى نظر ميں سب سے زيادہ محبوب ہيں۔

بحار الانوار ج 43 ص344

مروان بن حكم جو آپ كا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) كى رحلت كے بعد اس نے آپ كى تشيع جنازہ ميں شركت كى امام حسين نے پوچھا ميرے بھائی كى حيات ميں تم سے جو ہو سكتا تھا وہ تم نے كيا ليكن اب تم ان كى تشييع جنازہ ميں شريک اور رو رہے ہو ؟ مروان نے جواب ديا، ميں نے جو كچھ كيا اس شخص كے ساتھ كيا جس كى بردبارى پہاڑ ( كوہ مدينہ كى طرف اشارہ) سے زيادہ تھی۔

تاريخ الخلفاء ص191

شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص 13 ، 51

خلافت:

21 رمضان المبارک 40 ہجری كى شام كو حضرت على (ع) كى شہادت ہو گئی۔ اس كے بعد لوگ شہر كى جامع مسجد ميں جمع ہوئے حضرت امام حسن مجتبى (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور اپنے پدر بزرگوار كى شہادت كے اعلان اور ان كے تھوڑے سے فضائل بيان كرنے كے بعد اپنا تعارف كرايا، پھر بيٹھ گئے اور عبد اللہ بن عباس كھڑے ہوئے اور كہا لوگو يہ امام حسن (ع) تمہارے پيغمبر (ص) كے فرزند حضرت على (ع) كے جانشين اور تمہارے امام (ع) ہيں ان كى بيعت كرو۔

لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں ميں آپ كے پاس آتے اور بيعت كرتے رہے۔

ارشاد مفيد ص188

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص30

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص 50 _ 52

نہايت ہى غير اطمينان نيز مضطرب و پيچيدہ صورت حال ميں كہ جو آپ كو اپنے پدر بزرگوار كى زندگى كے آخرى مراحل ميں در پيش تھے آپ نے حكومت كى ذمہ دارى سنبھالی۔ آپ نے حكومت كو ايسے لوگوں كے درميان شروع كيا جو جہاد كى حكمت عملى اور اس كے اعلى مقاصد پر چنداں ايمان نہيں ركھتے تھے چونكہ ايک طرف آپ (ع) پيغمبر (ص) و على (ع) كى طرف سے اس عہدہ كے لیے منصوب تھے اور دوسرى طرف لوگوں كى بيعت اور ان كى آمادگى نے بظاہر ان پر حجت تمام كر دى تھى اس لیے آپ نے زمام حكومت كو ہاتھوں ميں ليا اور تمام گورنروں كو ضرورى احكام صادر فرمائے اور معاويہ كے فتنہ كو ختم کرنے كى غرض سے لشكر اور سپاہ كو جمع كرنا شروع كيا، معاويہ كے جاسوسوں ميں سے دو افراد كى شناخت اور گرفتارى كے بعد قتل كرا ديا۔ آپ (ع) نے ايک خط بھى معاويہ كو لكھا كہ:

اما بعد فانك دسَّست الرجال للاحتى ال و الاغتيال و ارصدت العيون كانك تحت اللقاء و ما اشك فى ذالك فتوقعہ انشاء اللہ

تم جاسوس بھيجتے ہو ؟ گويا تم جنگ كرنا چاہتے ہو جنگ بہت نزديک ہے منتظر رہو انشاء اللہ۔

ارشاد مفيد ص 189

بحارالانوار ج 44 ص45 ،

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص 31

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص 53

معاويہ كى كار شكنی:

جس بہانے سے قريش نے حضرت على (ع) سے روگردانى كى اور ان كى كم عمرى كو بہانہ بنايا معاويہ نے بھى اسى بہانہ سے امام حسن (ع) كى بيعت سے انكار كيا۔

امام حسين (ع) كے مقابل معاويہ كى منطق سے واقفيت كے لئے امام حسن (ع) كے نام معاويہ كا وہ خط پڑھا جائے جس كو ابن ابى الحديد نے اپنى شرح كى ج 16 ص 37 پر درج كيا ہے۔

وہ دل ميں تو يہ سمجھ رہے تھے كہ امام حسن (ع) تمام لوگوں سے زيادہ مناسب ہيں ليكن ان كى رياست طلبى نے ان كو حقيقت كى پيروى سے باز ركھا۔

معاويہ نے نہ صرف يہ كہ بيعت سے انكار كيا بلكہ وہ امام (ع) كو درميان سے ہٹا دينے كى كوشش كرنے لگا كچھ لوگوں كو اس نے خفيہ طور پر اس بات پر معين كيا كہ امام (ع) كو قتل كر ديں۔ اس بنا پر امام حسن (ع) لباس كے نيچے زرہ پہنا كرتے تھے اور بغير زرہ كے نماز كے لیے نہيں جاتے تھے، معاويہ كے ان مزدوروں ميں سے ايک شخص نے ايک دن امام حسن (ع) كى طرف تير پھينكا ليكن پہلے سے كیے گئے انتظام كى بنا پر آپ كو كوئی صدمہ نہيں پہنچا۔

بحار الانوار ج 44 ص23

معاويہ نے اتحاد كے بہانے اور اختلاف كو روكنے كے حيلے سے اپنے عمال كو لكھا كہ تم لوگ ميرے پاس لشكر لے كر آؤ، پھر اس نے اس لشكر كو جمع كيا اور امام حسن (ع) سے جنگ لڑنے كے لیے عراق كى طرف بھيج دیا۔

شرح شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص 37 و 38

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص60

امام حسن (ع) نے بھى حجر بن عدى كندى كوحكم ديا كہ وہ حكام اور لوگوں كو جنگ كے لئے آمادہ كريں۔

ارشاد مفيد ص189

بحار الانوار جلد 44 ص 46

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص38

مقاتل الطالبين ص 61

امام حسن (ع) كے حكم كے بعد كوفہ كى گليوں ميں منادى نے الصّلوة الجامعة، كى آواز بلند كى اور لوگ مسجد ميں جمع ہو گئے امام حسن (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ: معاويہ تمہارى طرف جنگ كرنے كے لیے آ رہا ہے تم بھى نُخَيلہ كے لشكر گاہ كى طرف جاؤ ..... پورے مجمع پر خاموشى طارى رہى۔

حاتم طائی كے بيٹے عدى نے جب ايسے حالات ديكھے تو اٹھ كھڑا ہوا اور اس نے كہا سبحان اللہ يہ كيسا موت كا سناٹا ہے جس نے تمہارى جان لے لى ہے؟ تم امام (ع) اور اپنے پيغمبر (ص) كے فرزند كا جواب نہيں ديتے ... خدا كے غضب سے ڈرو كيا تم كو ننگ و عار سے ڈر نہيں لگتا ...؟ پھر امام حسن (ع) كى طرف متوجہ ہوا اور كہا: ميں نے آپ كى باتوں كو سنا اور ان كى بجا آورى كے لیے حاضر ہوں۔ پھر اس نے مزيد كہا، اب ميں لشكر گاہ ميں جا رہا ہوں، جو آمادہ ہو وہ ميرے ساتھ آ جائے۔ قيس بن سعد، معقل بن قيس اور زياد بن صَعصَعہ نے بھى اپنى پر زور تقريروں ميں لوگوں كو جنگ كى ترغيب دلائی پھر سب لشكر گاہ ميں پہنچ گئے۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص 37 _ 40

بحار الانوار ج 44 ص 50

امام حسن (ع) كے پيروكاروں كے علاوہ ان كے سپاہيوں كو مندرجہ ذيل چند دستوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:

1- خوارج، جو صرف معاويہ سے دشمنى اور ان سے جنگ كرنے كى خاطر آئے تھے نہ كہ امام (ع) كى طرف دارى کی نیت سے۔

2- حريص اور فائدہ كى تلاش ميں رہنے والے افراد جو مادى فائدہ اور جنگى مال غنيمت حاصل كرنے والے تھے۔

3- شک كرنے اور متزلزل ارادے كے حامل افراد جن پر ابھى تک امام حسن (ع) كى حقانيت ثابت نہيں ہوئی تھی، ظاہر ہے كہ طبعى طور پر ايسے افراد ميدان جنگ ميں اپنى جاں نثارى كا ثبوت نہيں دے سكتے تھے۔

4- وہ لوگ جنہوں نے اپنے قبيلہ كے سرداروں كى پيروى ميں شركت كى تھى ان ميں كوئی دينى جذبہ نہ تھا۔

ارشاد مفيد ص189 ، بحار الانوار ج 44 ص 46

امام حسن (ع) نے لشكر كے ايک دستہ كو حَكَم كى سردارى ميں شہر انبار بھيجا، ليكن وہ معاويہ سے جا ملا اور اس كى طرف چلا گيا۔ حَكَم كى خيانت كے بعد امام (ع) مدائن كے مقام ساباط تشريف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد كو عبيد اللہ بن عباس كى سپہ سالارى ميں معاويہ سے جنگ كرنے كے لیے روانہ كيا اور قيس بن سعد كو بھى اس كى مدد كے لیے منتخب فرمايا كہ اگر عبيد اللہ بن عباس شہيد ہو جائيں تو وہ سپہ سالارى سنبھال ليں۔

معاويہ ابتداء ميں اس كوشش ميں تھا كہ قيس كو دھوكہ ديدے۔ اس نے دس لاكھ درہم قيس كے پاس بھيجے تا كہ وہ اس سے مل جائے يا كم از كم امام حسن (ع) سے الگ ہو جائے، قيس نے اس كے پيسوں كو واپس كر ديا اور جواب ميں كہا: تم دھوكے سے ميرے دين كو ميرے ہاتھوں سے نہيں چھين سكتے۔

تاريخ يعقوبى ج 2 ص 214

ليكن عبيد اللہ بن عباس صرف اس پيسے كے وعدے پر دھوكے ميں آ گيا اور راتوں رات اپنے خاص افراد كے ايک گروہ كے ساتھ معاويہ سے جا ملا صبح سويرے لشكر بغير سرپرست كے رہ گيا، قيس نے لوگوں كے ساتھ نماز پڑھى اور اس واقعہ كى رپورٹ امام حسن (ع) كو بھيج دى۔

ارشاد شیخ مفيد ص 190

قيس نے بڑى بہادرى سے جنگ كى چونكہ معاويہ نے قيس كو دھوكہ دينے كے راستہ كو مسدود پايا اس لیے اس نے عراق كے سپاہيوں كے حوصلہ كو پست كر دينے كے لیے دوسرا راستہ اختيار كيا۔ اس نے امام حسن (ع) كے لشكر ميں، چاہے وہ مَسكن ( مسكن منزل كے وزن پر ہے، نہر دجيل كے كنارے پر ايک جگہ ہے جہاں قيس كى سپہ سالارى ميں امام حسن (ع) كا لشكر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔) ميں رہا ہو يا مدائن ميں ، چند جاسوس بھيجے تا كہ وہ جھوٹى افواہيں پھيلائيں اور سپاہيوں كو وحشت ميں مبتلا كريں۔

مقام مَسكن ميں يہ پروپيگنڈہ كر ديا گيا كہ امام حسن (ع) نے معاويہ سے صلح كى پيشكش كى ہے اور معاويہ نے بھى قبول كر لى ہے۔

تاريخ يعقوبى ج 2 ص 214

اور اس كے مقابل مدائن ميں بھى يہ افواہ پھيلا دى كہ قيس بن سعد نے معاويہ سے سازباز كر لى اور ان سے جا ملا ہے۔

تاريخ يعقوبى ج 2 ص 214

ان افواہوں نے امام حسن (ع) كے سپاہيوں كے حوصلوں كو توڑ ديا اور يہ پروپيگنڈا امام (ع) كے اس لشكر كے كمزور ہونے كا سبب بنا، جو لشكر ہر لحاظ سے طاقت ور اور مضبوط تھا۔

معاويہ كى سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح كے موافق نہ تھے انہوں نے فتنہ و فساد پھيلانا شروع كر ديا۔ انہيں لوگوں ميں سے كچھ افراد نہايت غصّے كے عالم ميں امام (ع) كے خيمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ كر لے گئے يہاں تک كہ امام حسن (ع) كے پير كے نيچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس كو بھى كھينچ لے گئے۔

ارشاد مفيد ص190

تاريخ يعقوبى ج 2 ص215

بحار الانوار ج 44 ص 47

شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص41

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص 63

ان كى جہالت اور نادانى يہاں تک پہنچ گئی كہ بعض لوگ فرزند پيغمبر كو ( معاذ اللہ) كافر كہنے لگے اور جراح بن سَنان تو قتل كے ارادے سے امام (ع) كى طرف لپكا اور چلّا كر بولا، اے حسن (ع) تم بھى اپنے باپ كى طرح مشرک ہو گئے ( معاذ اللہ) اس كے بعد اس نے حضرت كى ران پر وار كيا اور آپ (ع) زخم كى تاب نہ لا كر زمين پر گر پڑے ، امام حسن (ع) كو لوگ فوراً مدائن كے گورنر سعد بن مسعود ثقفی كے گھر لے گئے اور وہاں كچھ دنوں تک آپ كا علاج ہوتا رہا۔

ارشاد مفيد ص190

تاريخ يعقوبى ج 2 ص 215

بحار الانوار ج 44 ص 47

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص 41

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص63

اس دوران امام (ع) كو خبر ملى كہ قبائل كے سرداروں ميں سے كچھ نے خفيہ طور پر معاويہ كو لكھا ہے كہ اگر عراق كى طرف آ جاؤ تو ہم تم سے يہ معاہدہ كرتے ہيں كہ حسن (ع) كو تمہارے حوالے كر ديں۔

معاويہ نے ان كے خطوط كو امام حسن (ع) كے پاس بھيج ديا اور صلح كى خواہش ظاہر كى اور يہ عہد كيا كہ جو بھى شرائط آپ (ع) پيش كريں گے وہ مجھے قبول ہيں۔

ارشاد شیخ مفيد ص190 _ 191 ،

تاريخ يعقوبى ج 2 ص 215

ان دردناک واقعات كے بعد امام (ع) نے سمجھ ليا كہ معاويہ اور اس كے كارندوں كى چالوں كے سامنے ہمارى تمام كوششيں نقش بر آب كے سوا كچھ نہيں ہيں۔ ہمارى فوج كے صاحب نام افراد معاويہ سے مل گئے ہيں لشكر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق كا دامن چھوڑ ديا ہے ممكن ہے كہ معاويہ بہت زيادہ تباہى اور فتنے برپا كر دے۔

مذكورہ بالا باتوں اور دوسرى وجوہ كے پيش نظر امام حسن (ع) نے جنگ جارى ركھنے ميں اپنے پيروكاروں اور اسلام كا فائدہ نہيں ديكھا۔ اگر امام (ع) اپنے قريبى افراد كے ہمراہ مقابلہ كيلئے اٹھ كھڑے ہوتے اور قتل كر ديئے جاتے تو نہ صرف يہ كہ معاويہ كى سلطنت كے پايوں كو متزلزل كرنے يا لوگوں كے دلوں كو جلب كرنے كے سلسلہ ميں ذرّہ برابر بھى اثر نہ ہوتا، بلكہ معاويہ اسلام كو جڑ سے ختم كر دينے اور سچے مسلمانوں كا شيرازہ منتشر كر دينے كے ساتھ ساتھ اپنى مخصوص فريب كارانہ روش كے ساتھ لباس عزا پہن كر انتقام خون امام حسن (ع) كے لیے نكل پڑتا اور اس طرح فرزند رسول(ص) كے خون كا داغ اپنے دامن سے دھو ڈالتا۔ خاص كر ايسى صورت ميں جب صلح كى پيشكش معاويہ كى طرف سے ہو چکی تھى اور وہ امام (ع) كى طرف سے ہر شرط قبول كر لينے پر تيار نظر آتا تھا۔ بنا برايں بس اتنا كافى تھا كہ امام (ع) نہ قبول كرتے اور معاويہ ان كے خلاف اپنے وسيع پروپيگنڈے كے ذريعہ اپنى صلح كى پيشكش كے بعد ان كے انكار كو خلاف حق بنا كر آپ (ع) كى مذمت كرتا اور كيا بعيد تھا، جيسا كہ امام (ع) نے خود پيشين گوئی كر دى تھی كہ ان كو اور ان كے بھائی كو گرفتار كر ليتا اور اس طريقہ سے فتح مكہ كے موقع پيغمبر (ص) كے ہاتھوں اپنى اور اپنے خاندان كى اسيرى كے واقعہ كا انتقام ليتا۔ اس وجہ سے امام (ع) نے نہايت سخت حالات ميں صلح كى پيشكش قبول كر لی۔

بحار الانوار ج 44 ص 17

شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص41_ 42

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص14

معاہدہ صلح:

معاہدہ صلح امام حسن كا متن، اسلام كے مقدس مقاصد اور اہداف كو بچانے ميں آپ كى كوششوں كا آئينہ دار ہے۔ جب كبھى كوئی منصف مزاج اور باريک بين شخص صلح نامہ كى ايک ايک شرط كى تحقيق كرے گا تو بڑى آسانى سے فيصلہ كر سكتا ہے كہ امام حسن (ع) نے ان خاص حالات ميں اپنى اور اپنے پيروكاروں اور اسلام كے مقدس مقاصد كو بچا ليا۔

صلح نامہ كی بعض شرائط ملاحظہ ہوں:

1- حسن (ع) زمام حكومت معاويہ كے سپرد كر رہے ہيں اس شرط پر كہ معاويہ قرآن و سيرت پيغمبر (ص) اور شائستہ خلفاء كى روش پر عمل كرے۔

بحار الانوار ج 44ص 65

2- بدعت اور على (ع) كے لیے ناسزا كلمات ہر حال ميں ممنوع قرار پائيں اور ان كى نيكى كے سوا اور كسى طرح ياد نہ كيا جائے۔

ارشاد مفيد ص191

مقاتل الطالبين ص43

حياة الامام الحسن بن على ج 2 ص 237

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص 4

3- كوفہ كے بيت المال ميں پچاس لاكھ درہم موجود ہيں، وہ امام مجتبى (ع) كے زير نظر خرچ ہوں گے،

تاريخ دول الاسلام ج 1 ص 53

حياة الامام الحسن بن على ج 2 ص 238

تذكرة الخواص ابن جوزى ص180

تاريخ طبرى ج 5 ص 160

اور معاويہ داراب گرد كى آمدنى سے ہر سال دس لاكھ درہم جنگ جمل و صفين كے ان شہداء كے پسماندگان ميں تقسيم كرے گا جو حضرت على (ع) كى طرف سے لڑتے ہوئے قتل كر ديئے گئے تھے۔

جوہرة الكلام

حياة الامام الحسن بن على ج 2 ص 337

4- معاويہ اپنے بعد كسى كو خليفہ معين نہ كرے۔

بحارالانوار ج 44 ص65

5- ہر شخص چاہے وہ كسى بھى رنگ و نسل كا ہو اس كو مكمل تحفظ ملے اور كسى كو بھى معاويہ كے خلاف اس كے گذشتہ كاموں كی بنا پر سزا نہ دى جائے۔

مقاتل الطالبين ص 43

6- شيعيان على (ع) جہاں كہيں بھى ہوں محفوظ رہيں اور كوئی انکو تکلیف نہیں پہنچائے گا۔

ارشاد مفيد

حياة الامام الحسن بن على ج 2 ص237

شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص4

امام (ع) نے اور دوسرى شرطوں كے ذريعہ اپنے بھائی امام حسين (ع) اور اپنے چاہنے والوں كى جان كى حفاظت كى اور اپنے چند اصحاب كے ساتھ جن كى تعداد بہت ہى كم تھى ايک چھوٹا سا اسلامى ليكن با روح معاشرہ تشكيل ديا اور اسلام كو حتمى فنا سے بچا ليا۔

معاويہ كى پيمان شكنی:

معاويہ وہ نہيں تھا جو معاہدہ صلح كو ديكھ كر امام (ع) كے مطلب كو نہ سمجھ سكے۔ اسى وجہ سے صلح كى تمام شرطوں پر عمل كرنے كا عہد كرنے كے باوجود صرف جنگ بندى اور مكمل غلبہ كے بعد ان تمام شرطوں كو اس نے اپنے پيروں كے نيچے روند ديا اور مقام نُخَيلہ ميں ايک تقرير ميں صاف صاف كہہ ديا كہ ميں نے تم سے اس لیے جنگ نہيں كى كہ تم نماز پڑھو، روزہ ركھو اور حج كے لیے جاؤ بلكہ ميرى جنگ اس لیے تھى كہ ميں تم پر حكومت كروں اور اب ميں حكومت كى كرسى پر پہنچ گيا ہوں اور اعلان كرتا ہوں كہ صلح كے معاہدہ ميں جن شرطوں كو ميں نے ماننے كيلئے كہا تھا ان كو پاؤں كے نيچے ركھتا ہوں اور ان كو پورا نہيں كروں گا۔

حياة الامام الحسن بن على ج 2 ص237

مقاتل الطالبين ص 43

ذخائر العقبى:

ميں اتنا مزيد ہے كہ: معاويہ نے شروع ميں ان شرائط كو مطلقاً قبول نہيں كيا اور دس آدميوں كو منجملہ قيس بن سعد كے مستثنى كيا اور لكھا كہ ان كو جہاں بھى ديكھوں گا ان كى زبان اور ہاتھ كاٹ دوں گا امام حسن(ع) نے جواب ميں لكھا كہ : ايسى صورت ميں، ميں تم سے كبھى بھى صلح نہيں كرونگا، معاويہ نے جب يہ ديكھا تو سادہ كاغذ آپ كے پاس بھيجديا اور لكھا كہ آپ جو چاہيں لكھديں ميں اسكو مان لونگا اور اس پر عمل كرونگا۔

لہذا اس نے اپنے تمام لشكر كو امير المؤمنين (ع) كى شان ميں ناسزا كلمات كہنے پر برانگيختہ كيا۔ اس لیے كہ وہ جانتا تھا كہ انكى حكومت صرف امام كى اہانت اور ان سے انتقامى رويہ كے سايہ ميں استوار ہو سكتى ہے، جيسا كہ مروان نے اس كو صاف لفظوں ميں كہہ ديا كہ على (ع) كو دشنام ديئے بغير ہمارى حكومت قائم نہيں رہ سكتى۔

بحار الانوار ج 44 ص 49

ابن شرح نہج البلاغہ ابى الحديد ج 16 ص 14_ 15 ، 46

مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ص70

ارشاد، مفيد 91

لا يستقيم لنا الامر الا بذالك اى بسبّ علي

دوسرى طرف اميرالمؤمنين (ع) كے چاہنے والے جہاں كہيں بھى ملتے ان كو مختلف بہانوں سے قتل كر ديتا تھا۔

اس زمانہ ميں تمام لوگوں سے زيادہ كوفہ كے رہنے والے سختى اور تنگى سے دوچار تھے۔ اس لیے كہ معاويہ نے مغيرہ كے مرنے كے بعد كوفہ كى گورنرى كو زياد كے حوالہ كر ديا تھا اور زياد شيعوں كو اچھى طرح پہچانتا تھا، وہ ان كو جہاں بھى پاتا بڑى بے رحمى سے قتل كر ديتا تھا۔

الصواعق المحرقہ ص 33

مدينہ كى طرف واپسی:

معاويہ ہر طرف سے طرح طرح كى امام كو تكليفيں پہنچانے لگا۔ آپ (ع) اور آپ (ع) كے اصحاب پر اس كى كڑى نظر تھى ان كو بڑے سخت حالات ميں ركھتا اور علی (ع) و خاندان على (ع) كى توہين كرتا تھا۔

يہاں تک كہ كبھى تو امام حسن (ع) كے سامنے آپ كے پدر بزرگوار كى برائی كرتا اور اگر امام (ع) اس كا جواب ديتے تو آپ (ع) كو بھى ادب سكھانے كى كوشش كرتا۔ كوفہ ميں رہنا مشكل ہو گيا تھا اس لیے آپ نے مدينہ لوٹ جانے كا ارادہ كيا۔

حياة الامام الحسن ابن على ج 2 ص356

ليكن مدينہ كى زندگى بھى آپ كے لیے عافيت كا سبب نہيں بنى اس لیے كہ معاويہ كے كارندوں ميں سے ايک پليد ترين شخص مروان مدينہ كا حاكم تھا، مروان وہ ہے جس كے بارے ميں پيغمبر (ص) نے فرمايا تھا:

ھو الوزغ بن الوزغ، الملعون بن الملعون،

ارشاد مفيد ص191

شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 16 ص 47

اس نے امام (ع) اور آپ كے اصحاب كا جينا مشكل كر ديا تھا، يہاں تک كہ امام حسن (ع) كے گھر تک جانا مشكل ہو گيا تھا، باوجوديكہ امام (ع) دس برس تک مدينہ ميں رہے ليكن ان كے اصحاب ، فرزند پيغمبر كے چشمہ علم و دانش سے بہت كم فيض ياب ہو سكے۔

مروان اور اس كے علاوہ دس سال كى مدت ميں جو بھى مدينہ كا حاكم بنا اس نے امام حسن (ع) اور ان كے چاہنے والوں كو تكليف و اذيت پہنچانے ميں كوئی كمى نہيں كی۔

شہادت:

معاويہ جو امام (ع) كى كمسنى كے بہانہ سے اس بات كے لیے تيار نہيں تھا كہ آپ (ع) كو خلافت دى جائے وہ اب اس فكر ميں تھا كہ اپنے نالائق جوان بيٹے يزيد كو ولى عہدى كے لیے نامزد كرے تا كہ اس كے بعد مسند سلطنت پر وہ متمكن ہو جائے۔

اور ظاہر ہے كہ امام حسن (ع) اس اقدام كے راستہ ميں بہت بڑى ركاوٹ تھے اس لیے كہ اگر معاويہ كے بعد امام حسن (ع) مجتبى زندہ رہ گئے تو ممكن ہے كہ وہ لوگ جو معاويہ كے بيٹے سے خوش نہيں ہيں وہ امام حسن (ع) كے گرد جمع ہو جائيں اور اس كے بيٹے كى سلطنت كو خطرہ ميں ڈال ديں لہذا يزيد كى ولى عہدى كے مقدمات كو مضبوط بنانے كے لیے اس نے امام حسن (ع) كو راستہ سے ہٹا دينے كا ارادہ كيا۔ آخر كار اس نے مکر و حیلے كا مظاہرہ كرتے ہوئے امام حسن (ع) كى بيوی جعدہ بنت اشعب كے ذريعہ آپ (ع) كو زہر ديديا اور امام معصوم (ع) 47 سال كى عمر ميں 28 صفر 50ھ ق كو شہيد ہو گئے اور مدينہ كے قبرستان بقيع ميں دفن ہوئے۔

حياة الامام الحسن بن على ج 1 ص239

مستدرك حاكم ج 4 ص 479

دلائل الامامہ طبرى ص61 ،

كشف الغمہ ج 1 ص 515 ص 516 مطبوعہ تبريز،

ارشاد مفيد ص192 ، مرحوم مفيد عليہ الرحمہ نے شہادت كے وقت آپ كى عمر 48 سال بيان كى ہے۔

التماس دعا.....

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی